Aug 22, 2015

برقی پیغامات

رات کے پچھلے پہر جب انسان دنیا و مافیا سے بے نیاز خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہوتا ہےتو بعض اوقات شدید پیاس کا احساس بند آنکھ کھول کر پانی تک رسائی کا راستہ دکھاتا ہے۔ ہاتھ لمبا کر کے گلاس اُٹھایا جاتا ہے  اور ہونٹوں سے لگا کر غٹا غت حلق سے نیچے اُتار لیا جاتا ہے۔ مشن مکمل ہونے پر آنکھیں پھر سے بند ہونے کے لئے تیار ہو جاتی ہیں۔اسی طرح کے کئی مواقع سے ہمیں روز انہ صبح سے شام تک گزرنا ہوتا ہے۔ ہمارے لئے یہ معمولات زندگی ہوتے ہیں سائنس اس کی کئی توجیحات پیش کرتی ہے۔ ہمارے ایکشن اور رویوں میں برین کا موٹر فنکشن شامل ہوتا ہے۔

پانی کا سادہ گلاس اُٹھانے کے لئے کن پٹھوں کو  استعمال میں لایا جائے کافی نہیں ہوتا، بلکہ گلاس کو کہاں سے پکڑا جائے،  اُٹھانے کے لئےکتنی قوت بروئے کار لائی جائے، گلاس میں کتنا پانی ہے ،گلاس کس میٹیریل کا بنا ہوا ہے بلکہ اس کی جزئیات کے بارے میں بھی برین مکمل چھان پھٹک کرتا ہے۔ برین کاوہ حصہ  موٹر کورٹکس کہلاتا ہے۔جہاں سے سگنل اعضاء تک پہنچائے جاتے ہیں اور ان کی نقل و حرکت کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔


سائنس میرا موضوع نہیں اور نہ ہی آج کی تحریر برین کے کام کرنے کے طریقہ کار کو وضع کرنے کے لئے ہے۔ صرف اتنا بتانا مقصود ہے کہ ہم اپنے ظاہر کے ہر عمل سے واقف اور با خبر ہوتے ہیں مگر پس پردہ ہونے والےایکشن اور مشن سے مکمل طور پر بے خبر اور لا علم رہتے ہیں۔یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ سکن کے نیچے کی دنیا ہمیں اپنے ہونے کے احساس سے  لا علم رکھتی ہے۔چمڑی سے باہر کی دنیا کا ہر فعل مکمل  دکھائی دیتا ہے ۔ بھاگتے ہوئے توازن کیسے قائم رکھا جاتا ہے ، ایک ایک اعضاء دوسرے اعضاء کو سہارا دے کر یکجہتی کا کمال مظاہرہ کرتے ہیں۔ اجسام دو برابر حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں جہاں دماغ کا بایاں حصہ جسم کے دائیں حصہ کو اور دماغ کا دائیاں حصہ جسم کے بائیں حصہ کو کنٹرول کرتا ہے۔ لیکن انسان پیدائش سے لے کر موت تک ان بھول بھلیوں سے لا تعلقی اختیار کئے رکھتا ہے کیونکہ مشن میں ایکشن بھی ہوتا ہے ری ایکشن بھی۔تلاش و جستجو کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر کام اپنے وقت مقررہ پر پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے۔ 
اگر کہیں بہت تھوڑی  گڑ بڑ مشن کی تکمیل کے راستے میں حائل ہو تو جسم ہاسپٹل کے بستر پر پہنچ جاتا ہے۔ جہاں ڈاکٹر دوائی سے علاج معالجہ کرتے ہیں اور مزاج پرسی کے لئے آنے والے دعاؤں سےجو کہ مریض کی قوت مدافعت بڑھانے میں مددگار ہوتی ہے۔ مساجد میں با جماعت نماز کے بعد امام مساجد  سے بیماری سے شفا کے لئے خصوصی دعاؤں کے  لئےکہا جاتا ہے۔ مزاروں پر چادریں چڑھائی جاتی ہیں ،غرباء میں کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ صدقہ و خیرات کیا جاتا ہے۔ ہمت و حوصلہ سے  لڑنے والے  بیماریوں سےجلد چھٹکارہ پا لیتے ہیں۔ دعاؤں کو جو طاقت بنا لیتے ہیں وہ دواؤں سے فوری نتائج حاصل کر لیتے ہیں۔جو صرف دواؤں ہی سے مسیحائی چاہتے ہیں ایک سے چھوٹ نہیں پاتے کہ دوسرے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ 
دین و دنیا ہماری زندگیوں میں برین اور اجسام کی طرح ایکٹ کرتی ہے اور نتائج فراہم کرتی ہے۔مرئی اور غیر مرئی قوتیں بر سر پیکار ہوتی ہیں۔ظاہر یقین سے ربط رکھتا ہے باطن ایمان سے ، دنیا سبب سے منسلک ہے دین اعتبار سے۔پانچ وقت کی نمازیں رمضان کے روزے نماز عیدین اور قربانی کے فرائض کی ادائیگی کے تہوار و عادات اجسام کو چمڑی سے نیچے کے سفر پر گامزن کرتے ہیں۔ دنیا ایک جسم کی مانند دکھائی دیتی ہے جس کا برین دین اسلام ہے جو تا قیامت زندگیوں کی چھان پھٹک کرتا ہے۔تواز ن کو بگڑنے نہیں دیتا۔بدی کو پھیلنے سے روکتا ہے نیکی کو طاقت عطا کرتا ہے۔ ہزار جھوٹ کے مقابلے میں ایک سچ کو قوت دیتا ہے۔مغرور ، گھمنڈی اور متکبر امارت کے زعم میں عقل سے اندھے ہو جاتے ہیں۔جن کا وجود کے خاتمے کے ساتھ نام لیوا کوئی نہیں رہ جاتا۔ 
کلام مجید کا ایک ایک حرف اس کائنات کے چھپے رازوں کےبند قفل کی چابی ہے۔ جو دوا اور دعا دونوں کا کام کرتی ہے۔جو بیمار اجسام دواؤں کی تھوڑی مقدار سے ٹھیک ہو جائیں وہ دعاؤں کے طالب نہیں رہتے۔جنہوں نے دعاؤں سے شفاء پائی ہو وہ باآسانی جان جاتے ہیں کہ جس دنیا کے وہ باسی ہیں اس کا برین صرف قرآن ہے۔جو ہر فعل و عمل کی جزئیات تک رہنمائی فراہم کرتا ہےاور قوت مدافعت بڑھانے کے لئے  مددومددگار فراہم کرتا ہے۔ جو علم خوبصورتی میں لپٹا دانش یزداں کی آمیزش سے لمحاتِ پھیلاؤ  میں وقت کو سمیٹ لے وہ حسنِ زوالجلال کی نعمتوں کا شکر بجا لاتا ہے۔      

محمودالحق

1 تبصرے:

Christena421 said...

Beshak Allah insan sai bht muhabbat krta hai.
http://www.mobile-phone.pk/wallpapers/

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter