تکلیف دہ کانٹوں بھرے راستوں سے ننگے پاؤں چلتے چلتے منزل کے قریب پہنچ کر سستانے کی خواہش درد کی شدت میں اضافہ کا سبب بن جاتی ہے۔ پھر قدم چلنے کی بجائے گھسٹنے پر آ جاتے ہیں۔ قریب ہو کر بھی منزل کوسوں دور نظر آتی ہے۔سانس سانسوں میں الجھتی چلی جاتی ہے۔ اجنبی پن میں جتنی تیزی سے اندر اُترتی ہے اُتنی تیزی سے باہر نکلتی ہے۔
زندگی راستہ پر ڈال دیتی ہے ۔ عقل سے مقام منزل تک مسافت کی راہداریاں بنائی جاتی ہیں۔ دیکھنے میں جو سیدھی اور قریب ترین پگڈنڈیوں کو نظر سے استوار کرتی ہیں۔ فاصلے ماپ لئے جاتے ہیں۔ قدم گن لئے جاتے ہیں۔وقت طے کر لیا جاتا ہے۔ خوشیوں سے جھولی بھر لی جاتی ہے۔ مگر تصور خیال حقیقت کا روپ دھارنے میں پس و پیش اور لیت و لعل سے کام لیتا ہے۔ منزل پانے کی خوشی جتنی زیادہ بانہیں کھولتی ہے۔ منظر اوجھل ہونے کا خوف اتنا زیادہ اسے جکڑ لیتا ہے۔
حرف آخر سمجھ کر فیصلے صادر کر دئیے جاتے ہیں۔ عقل حالات سے سمجھوتہ کر لیتی ہے۔خیال حقیقت میں ڈھلنے پر دھمال ڈالتا ہے۔ سکون کی داسیاں عقل کی مورتیوں پر چڑھاوے چڑھاتی ہیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ دودھ کی نہریں بہنے کے لئے فرہاد کی ایک ضرب کی منتظر ہیں۔
غم ہجر محبوب میں کیفیت دل سے ہو کر گزرے تو چشم تر سے گزرے۔ یقین سے کہنا ہو گا کہ جسے دیکھنے ہوں جلوے وہ شہر محبت کے در سے گزرے۔
پردے گرانے سے جو نظارے ہوں وہ چلمن اُٹھانے سے نہیں ۔ پوجا کرے گا تو پجاری بنے گا۔عشق میں عقیدت مند رہے گا۔ محبت درگزر و معافی کی اونچی سر تان سے نغمہ سرا ہو گا۔ دور رہنے والا عشق پاس رہنے والی محبت سے رتبہ میں عظیم ہے۔ آگ کے آلاؤ کتنے ہی روشن کیوں نہ ہو۔ قریب آنے پر جلانے میں دیر نہیں لگاتے۔ روشنیوں کے دہکتے آلاؤ فاصلوں کی دوری سے جلانے کی فطرت پر نہیں ہوتے۔
1 تبصرے:
جی میرے پلے کچھ نہیں پڑا ۔ کبھی اتنی ثقیل محبت میں پڑا اور نہ کبھی کسی وہم یا مخمصے کو پاس پھٹکنے دیا ۔ اللہ کے سہارے بچپن سے لے کر بڑھاپے تک اپنی عقل اور اپنے عمل سے راستہ بناتا گیا ۔ نشیب آئے گھاٹیاں آئیں چٹانیں بھی حائل ہوئیں جان کھونے کا خطرہ بھی آیا مگر اللہ کے کرم سے استقلال کا دامن نہ چھوٹا ۔
Post a Comment