بلندیوں کی جس انتہا پر پرواز کرتےہیں، اسی قدر اعتماد اور اعتبار بھی رکھتے ہیں۔ اُڑنے والا جہاز ہو یا اُڑانے والا پائلٹ۔ مہارت پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کی مسافت طے کرتے ہیں۔زندگی زندہ رہنے کی گارنٹی عطا کرتی ہے۔حالانکہ زمین پر چلتے ہوئے انسان بھی بلندیوں سے رینگتے ہوئے کیڑے مکوڑوں کی طرح بھی دکھائی نہیں دیتے۔اتنی بلندی مگر خوف کا عنصر سرے سے غالب نہیں آتا۔اس لئے کہ اگر جہاز کے پرزہ جات کے ناقابل استعمال ہونے کا یقین کر لیں تو خوف کے مارے آنکھیں کھولنا مشکل ہو جائے گا اور اگر پائلٹ کی نا تجربہ کاری کا یقین ہو جائے تو تو موت کو برحق کہنے والے بھی ایسے سفر کو خودکشی سے کم نہیں سمجھ سکتے ۔
ہم زندگی کی بدنی مسافرت میں اپنی جان کا اختیار ان دیکھے انسان کے حوالے کرنے سے ہچکچاتے نہیں ہیں اور لے جانے والے پرزے بھی اپنی گارنٹی خود دیتے ہیں۔لیکن جب تخیل میں سے خواب وخیال حقیقت کا روپ دھارنے پر آتے ہیں تو ،اگر ،مگر، کیوں، کیسے کی تکرار انہیں خوف میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ممکن نا ممکن کی ضرب تقسیم سے فائدے کے نمبر حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اچھے نمبروں کے لئے انسان بچپن سے امتحانات کے پل صراط سے گزرتا ہے۔اول پوزیشن پانے پر ہار کی مالا استاد کے گلے میں پہنانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ حالانکہ دن رات کی محنت سے حاصل وجود کسرت سے ہوتا ہے۔ لیکن رہنمائی اور پابندیٗ اوقات اسے مقصدکی تکمیل تک پہنچا کر دم لیتی ہے۔
ذات کی پہچان کا سفران تمام مسافتوں سے کہیں زیادہ توانائی کا طالب ہوتا ہے۔اس منزل کے مسافر جب بلندیٗ پرواز میں رہنما کے گلے میں مہارت اور قابلیت کی مالا پہنا دیتے ہیں تو انسانوں کی بھیڑ سے دور ہوتے ہوئے بھی وہ محسو س انہیں قریب کرتے ہیں۔
جو پھول خوشبو دیتا ہے وہ رنگ بھی رکھتا ہے۔جو دلکشی میں جازب نظر ہوتے ہیں۔جن کی تعریف نہ کرنا بھی خوشبو سے نا انصافی کے زمرے میں آتی ہے۔ان رنگوں میں بعض رنگ خاص ہوتے ہیں۔خوشبو سے مہکا دیتے ہیں۔ان کا عرق بھی آنکھوں کی بینائی کو شفا بخشتا ہے۔لیکن انہیں پھر بھی مخصوص و محدود نہیں کیا جا سکتا۔خوشبو چھپائی نہیں جا سکتی جب بھی کھولیں گے وہ دوسروں تک پہنچ جائے گی۔اگر دوسروں کو اس سے محروم رکھنا چاہیں گے تو خود بھی اس سے محروم رہیں گے۔
آسمان چمکتے دمکتے ستاروں سے بھرا پڑا ہے۔ جو طواف گردش میں پابندی سے جگہ تبدیل کرتے رہتے ہیں۔مگر ان میں ہی قطب ستارے تبدیلی کے مراحل سے کم گزرتے ہیں۔ایک جگہ قائم رہ کر دوسروں کو صحیح راستہ کی رہنمائی کرتے ہیں۔جس سے راستہ بھٹکنے والےمنزل تک با آسانی پہنچ جاتے ہیں۔دوسروں کو بھی اسی راستہ کی
نشاندہی کرتے ہیں۔
پسند کی شے کو مخصوص کر لینا انسانی فطرت میں ہے۔ وہ بلا شرکت غیرے اپنا اختیار رکھنا چاہتا ہے۔جو اسے خود پرستی میں مبتلا کر دیتا ہے۔جو ایک لا علاج مرض کی طرح وجود ہستی کو متواتر کچوکے لگاتا رہتا ہے۔پانے کی چاہت ، قبضہ کی شدت میں تبدیل ہونے میں کچھ وقت لیتی ہے۔پھر میں کی رسیاں پاؤں کی بیڑیاں بن جانے میں دیر نہیں لگاتیں۔
آگے بڑھنے کے لئے ضروری ہے کہ حقیقت کو حق کے ساتھ سمجھا جائے۔پر پرواز کی سکت نہ رکھتے ہوں تو اونچی اُڑان خطرے سے خالی نہیں ہوتی۔انھیں پھڑ پھڑاتے رکھنا ضروری ہے۔تاکہ وقت کی مالش سے قوت پرواز رفتہ رفتہ بڑھتی رہے۔تقویت پانے کے لئے تنہا پرواز کا شوق مہنگا پڑ جاتا ہے۔بلندی پرواز روکنے کے لئے بلند نگاہ خور ان پر جھپٹنے کے لئے ہر دم تیار رہتے ہیں۔
ایک ہی طرح کی قوت پرواز رکھنے والے اکھٹے رہ کر ہی قطبی ستارہ کے بتائے راستہ پر چلنے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔وگرنہ سفر کی تھکان قطبی ستارہ کو آنکھوں سے اوجھل کر سکتی ہے۔
پا کر دینے کا نام زندگی ہے۔خود کو نچھاور کر دینا بقاٗ حیات ہے۔
تھکا ماندہ وجود خودفریبی میں رہے تو حیات باقی بن جاتا ہے۔جو صرف وقت کھونے کا دکھڑا سناتا رہتا ہے۔
منزل پانا اتنا آسان نہیں ہوتا اور نہ ہی کبھی ہو سکتا ہے۔کیونکہ جو دیکھا ہی نہ ہو وہ منزل کیسی۔ وہ صرف مقام کہلاتا ہے۔مقام تک لے کر جانے والے منزل ہوتے ہیں۔جو اپنی جگہ کھڑے رہ کر راستہ کی بھل بھلیوں سےگزر کر مقام تک رسائی کی منزل پاتے ہیں۔
مہمان بن کر جانا ہو یا مہمان کا گھر آنا ہو تو تیاری مکمل کی جاتی ہے۔غسل سے لے کر نئے کپڑے اور خوشبو کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ فنکشن کے تمام تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔آغاز سفر سے پہلے ہی مقام تک پہنچنے کے تمام مراحل طے کر لئے جاتے ہیں۔
مگر جب روح کے سفر پر چلنا ہو تو گناہوں کی گھڑیاں سر پر اُٹھا کر طواف کعبہ تک چلا جاتا ہے۔اس مقام پر پہنچ کر توبہ سے دھلے نئے کپڑے زیب تن کئے جاتے ہیں۔پھر ان میں سے چند ان کپڑوں کو داغ دھبوں سے بچا کر رکھتے ہیں اور بعض دوبارہ آنے کا قصد کر کے توبہ سے دھلے کپڑے میلے کر لینے کے بعد پھر ایک نیا عہد کرتے ہیں۔
ایسی چھوٹ انسان تو گھر آئے مہمان کو بار بار نہیں دیتا۔مگر اللہ ہر بار اپنے گھر آنے والے بندے کو توبہ سے دھلے کپڑے بار بار لینے سے منع نہیں فرماتا۔
کیونکہ وہ عظم ہے عظیم تر خالق ہے، مالک ہے ، سننے والا ،جاننے والا،بخشنے والا ہے۔چاہنے والا اور چاہے جانے والا ہے۔
تحریر ! محمودالحق
یکم جون 2014
0 تبصرے:
Post a Comment