کینوس پر رنگ بکھیرتا مصور دو آنکھوں کو وہ دکھانا چاہتا ہے جو ستاروں سے چھپ کر اسی کی روشنی سے چرایا ہو۔پھول کی نازک پتیوں سے جیسے خوشبو کو پایا ہو۔آسمان سے نچھاور ہوتے سفید روئی جیسے گالوں کو پیاسی دھرتی نے حدت کو چھپا کر ٹھہرایا ہو۔گرم ہواؤں کو سرد نم بادل نےگڑگڑاتی بجلی سے دور بھگایا ہو۔کوئل نےکھلی چونچ سے سُر کا جادو جگایا ہو۔
پینٹنگ دیکھنے والا مبہوت ہو جائے ۔شاہکار کینوس سے نکل کر اُس کی روح میں جذب لہو بن دوڑنے لگے۔ایک کے بعد ایک مریض عشق بوجھل قدموں سے باہر جانے کے راستے سے اپنی سواری کا مقام ریگستان میں بھٹکے اونٹ کی طرح کبھی دائیں تو کبھی بائیں جانے کے لئے پریشانی کا شکار ہو جائے۔
تو پھر وہ مصور بھول جاتے ہیں تصویر کشش کھو دیتی ہے۔ ایک ہلکی مسکراہٹ مونا لیزا بن کر ذہن پر سوار ہو جاتی ہے۔جس کے چرچے صدیاں گزرنے پر مندمل نہیں ہو پاتے۔وہ احساس کسی شمار میں نہیں لایا جا سکتا۔کیونکہ وہ اعداد نہیں جو تعداد سے کیفیت اظہار کو بڑھا چڑھا کر کھونے اور پانے کے ترازو پر تل سکے۔
گھر کے دروازے آنگن میں ہی کھلتے ہیں اور کھڑکیاں گلیوں میں ،جہاں آنے جانے والے صرف تانک جھانک کر سکتے ہیں۔ لوہے کی ان سلاخوں میں سے گملوں میں کھلایا گیا ایک پھول اور چورن کی پڑیا پر لکھا ایک شعر باآسانی گزر سکتا ہے مگر کھانسنے والے کے لئے دوائی اور بلکتے بچوں کے لئے چنگیر پر چند لقمے نہیں جوانہیں ایک نظر نہیں بھاتے۔
حقیقت جتنی تلخ ہوتی ہے اس کے احساس کی تلخی کوبرا سانپ کے زہر سے بھی زیادہ شدت سے رگوں میں جوگی کی بین پر مستی میں محو رقص رہتی ہے۔دور رہ کر تماشا دیکھنے والے ایک ایک قدم پیچھے ہٹتے لطف اندوزی کی کیفیت سے سرشاری میں مبتلا رہتے ہیں۔ اعداد کی گنتی اور ستاروں کی چالوں کا کھیل نہیں کہ آگے بڑھنے پر سکو ربننے لگیں اور پیچھے ہٹنے پر وقت بڑھ جائے۔
قلب دھک دھک سے جو وجود کو دستک دیتا ہے پیٹنے پر آ جائے تو قیامت برپا کر دیتا ہےاورخاموش ہو جائےتو سکوت طاری کر دیتا ہے۔خود سے کھیلنے والوں کو گنتی بھلا دیتا ہے۔ جو آسمانوں کی سیر کرتے ہیں انہیں منٹوں میں زمین چٹوا دیتا ہے۔
دھرتی کی پانی سے محبت کی کہانی آدم کی پیدائش سے بہت پہلے سے ہے مگر اس کا انجام آدم کے اختتام پر ہو گا جب پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح ہواؤں میں بکھر جائیں گے اورزمین سیدھی بچھا دی جائے گی۔ پھر نہ ہی دھرتی پیاسی رہے گی اور نہ ہی بادل اسے بجھانے آئے گا۔یہ کہانی تب تک چلے گی جب تک کینوس پر مصور کے رنگ بکھرتے رہیں گے۔ مسکراہٹوں کے جادو سر چڑھ کر بولتے رہیں گے۔
جن کی پختگیء خیال یقین کی ڈوریوں سے بندھی ہے وہ حقیقت شناسی کی گانٹھوں سے آگے بڑھنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔
شاخوں پہ کھلتے پھول ایک وقت کے بعد مرجھا کر حسنِ آرزو سے تعلق کھو دیتے ہیں۔ آسمان سے گرتی نرم روئی جیسی برف دھرتی کی حدت بڑھنے پر پگھل جاتی ہے۔وہ اتنی ہی دیر ساتھ نبھاتی ہے جتنی دیر تک وہ اسے جذب کرنے کے قابل رہے ۔اور پانی اپنا راستہ بناتے ہوئے اپنے اصل کی طرف رواں دواں ہو جاتاہے۔
دو آنکھیں پھر ایک لمبے سفر پہ کسی نئے کینوس پر مصور کے پھیلائے رنگوں سے مسکراہٹ پانے کے انتظار میں ہر پڑاؤ پر رک جاتی ہیں۔جہاں ہزاروں آنکھیں ایک دوسرے میں جھانک کر پھر آگے بڑھ جاتی ہیں۔ناآشنائی کے نا ختم ہونے والے کھیل کی طرف جو ایک پزل کے حل ہونے پر اگلے قدرے مشکل پزل میں داخل کر دیتا ہے۔امتحان کے یہ کڑے وقت آزمائش کی مضبوط گرفت ڈھیلی نہیں ہونے دیتے۔ ساحل سمندر پر بنائے ریت کے گھروندے بار بار پانی میں بہہ جانے کے بعد بھی ویسے ہی بار بار بنائے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ نہ تو تخلیق ہیں اور نہ ہی شاہکار، جو دو آنکھوں سے جزب سے سرشار ہو کر مصور کا تصور مٹا سکیں۔ مگر گہرے پانیوں میں اُترنے والی کشتی ایک ہی بار تکمیل وپختگی کے بعد لہروں کے سپرد کی جاتی ہے۔کیونکہ ایک معمولی سوراخ اسے دوبارہ ابھرنے کی مہلت نہیں دیتا۔
محمودالحق
پینٹنگ دیکھنے والا مبہوت ہو جائے ۔شاہکار کینوس سے نکل کر اُس کی روح میں جذب لہو بن دوڑنے لگے۔ایک کے بعد ایک مریض عشق بوجھل قدموں سے باہر جانے کے راستے سے اپنی سواری کا مقام ریگستان میں بھٹکے اونٹ کی طرح کبھی دائیں تو کبھی بائیں جانے کے لئے پریشانی کا شکار ہو جائے۔
تو پھر وہ مصور بھول جاتے ہیں تصویر کشش کھو دیتی ہے۔ ایک ہلکی مسکراہٹ مونا لیزا بن کر ذہن پر سوار ہو جاتی ہے۔جس کے چرچے صدیاں گزرنے پر مندمل نہیں ہو پاتے۔وہ احساس کسی شمار میں نہیں لایا جا سکتا۔کیونکہ وہ اعداد نہیں جو تعداد سے کیفیت اظہار کو بڑھا چڑھا کر کھونے اور پانے کے ترازو پر تل سکے۔
گھر کے دروازے آنگن میں ہی کھلتے ہیں اور کھڑکیاں گلیوں میں ،جہاں آنے جانے والے صرف تانک جھانک کر سکتے ہیں۔ لوہے کی ان سلاخوں میں سے گملوں میں کھلایا گیا ایک پھول اور چورن کی پڑیا پر لکھا ایک شعر باآسانی گزر سکتا ہے مگر کھانسنے والے کے لئے دوائی اور بلکتے بچوں کے لئے چنگیر پر چند لقمے نہیں جوانہیں ایک نظر نہیں بھاتے۔
حقیقت جتنی تلخ ہوتی ہے اس کے احساس کی تلخی کوبرا سانپ کے زہر سے بھی زیادہ شدت سے رگوں میں جوگی کی بین پر مستی میں محو رقص رہتی ہے۔دور رہ کر تماشا دیکھنے والے ایک ایک قدم پیچھے ہٹتے لطف اندوزی کی کیفیت سے سرشاری میں مبتلا رہتے ہیں۔ اعداد کی گنتی اور ستاروں کی چالوں کا کھیل نہیں کہ آگے بڑھنے پر سکو ربننے لگیں اور پیچھے ہٹنے پر وقت بڑھ جائے۔
قلب دھک دھک سے جو وجود کو دستک دیتا ہے پیٹنے پر آ جائے تو قیامت برپا کر دیتا ہےاورخاموش ہو جائےتو سکوت طاری کر دیتا ہے۔خود سے کھیلنے والوں کو گنتی بھلا دیتا ہے۔ جو آسمانوں کی سیر کرتے ہیں انہیں منٹوں میں زمین چٹوا دیتا ہے۔
دھرتی کی پانی سے محبت کی کہانی آدم کی پیدائش سے بہت پہلے سے ہے مگر اس کا انجام آدم کے اختتام پر ہو گا جب پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح ہواؤں میں بکھر جائیں گے اورزمین سیدھی بچھا دی جائے گی۔ پھر نہ ہی دھرتی پیاسی رہے گی اور نہ ہی بادل اسے بجھانے آئے گا۔یہ کہانی تب تک چلے گی جب تک کینوس پر مصور کے رنگ بکھرتے رہیں گے۔ مسکراہٹوں کے جادو سر چڑھ کر بولتے رہیں گے۔
جن کی پختگیء خیال یقین کی ڈوریوں سے بندھی ہے وہ حقیقت شناسی کی گانٹھوں سے آگے بڑھنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔
شاخوں پہ کھلتے پھول ایک وقت کے بعد مرجھا کر حسنِ آرزو سے تعلق کھو دیتے ہیں۔ آسمان سے گرتی نرم روئی جیسی برف دھرتی کی حدت بڑھنے پر پگھل جاتی ہے۔وہ اتنی ہی دیر ساتھ نبھاتی ہے جتنی دیر تک وہ اسے جذب کرنے کے قابل رہے ۔اور پانی اپنا راستہ بناتے ہوئے اپنے اصل کی طرف رواں دواں ہو جاتاہے۔
دو آنکھیں پھر ایک لمبے سفر پہ کسی نئے کینوس پر مصور کے پھیلائے رنگوں سے مسکراہٹ پانے کے انتظار میں ہر پڑاؤ پر رک جاتی ہیں۔جہاں ہزاروں آنکھیں ایک دوسرے میں جھانک کر پھر آگے بڑھ جاتی ہیں۔ناآشنائی کے نا ختم ہونے والے کھیل کی طرف جو ایک پزل کے حل ہونے پر اگلے قدرے مشکل پزل میں داخل کر دیتا ہے۔امتحان کے یہ کڑے وقت آزمائش کی مضبوط گرفت ڈھیلی نہیں ہونے دیتے۔ ساحل سمندر پر بنائے ریت کے گھروندے بار بار پانی میں بہہ جانے کے بعد بھی ویسے ہی بار بار بنائے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ نہ تو تخلیق ہیں اور نہ ہی شاہکار، جو دو آنکھوں سے جزب سے سرشار ہو کر مصور کا تصور مٹا سکیں۔ مگر گہرے پانیوں میں اُترنے والی کشتی ایک ہی بار تکمیل وپختگی کے بعد لہروں کے سپرد کی جاتی ہے۔کیونکہ ایک معمولی سوراخ اسے دوبارہ ابھرنے کی مہلت نہیں دیتا۔
محمودالحق
1 تبصرے:
لفظ کے نشتروں سے روح کو زخمی کرتی یہ" کیفیتِ اظہار" اگر قاری کو جھنجھوڑ کر کھ دیتی ہے تو دوسری طرف بےرحم مرہم کا کام بھی کرتی ہے ۔
Post a Comment