زندگی کے اوراق پلٹتے جائیں تو جدوجہد کی طویل فہرست دکھائی دیتی ہے۔ انتھک سفر کے بعد کامیابی کا ایک پڑاؤ پھر نیا سفر لیکن منزل سے کوسوں دور، صبر کی چوٹیوں کے پار ،طغیانی بھرے دریا گنگناتی آبشاروں کے گیت کو شور میں دباتے ڈھلوانوں کی طرف گامزن پہلے ہوش اُڑاتے پھر ہوش ٹھکانے لگاتے مایوسیوں کی ناؤ بہاتے گزرتے جاتے ہیں۔انسان خودغرضی کی دولت سمیٹتا عنایات کی بھرمار سے بےنیاز حاصل کو منزل مان کر ٹھہر جاتا ہے۔جانبِ بہاؤ ناؤ کے چپُو چلانے میں نشہ کی سرشاری میں مبتلا رہتا ہے۔
کہاں چل دئیے پلٹ کر کیوں نہ بلندیوں کے تھکا دینے والے سفر پر چلیں جہاں منظر دلکش ہیں وادیاں حسین ، گرم پہاڑ برف پگھلاتے جھیلیں ٹھنڈی ہیں۔
جلد سے اوپر کی ڈیلنگ کی دنیا سے دور، جلد کی نیچے کی فیلنگ کی دنیا کے قریب۔ جہاں ایک انسان کسی دوسرے ہمدرد دوست سے ملی خوشبو کو ساتھ لئے پھرتا ہے۔ احساس اظہار کا مرہون منت نہیں ہوتا۔ لاکھوں لائبریریوں میں سجی کروڑوں کتب انسانوں سے ہمکلام نہیں ہوتیں۔ احساس احساس سے شناسا رہتا ہے۔ ڈیلنگ سےکیفیت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔کانوں کو جو بھلا لگتا ہےوہی رس گھولتا ہے۔نگاہوں کو جو خیرہ کرتا ہے وہی پینٹ ہو جاتا ہے۔ آگے بڑھنا شہرت ناموری امارت کی خواہش پر ہو تو مہنگی سستی کرنی پڑتی ہےتاکہ زیادہ تک رسائی ممکن ہو۔بیچنے کے لئے سر بازار آواز لگانی پڑتی ہےسامان قرینے سے سجایا جاتا ہے۔
سچ کی طاقت جو جان لیتے ہیں، مدد سے مددگار کو پہچان لیتے ہیں۔آزمائشوں کے پودوں پر عنایات کے پھل پا لیتے ہیں تو وہ مہک کو ہر وقت اپنے ساتھ محسوس کرتے ہیں۔کوئلے کی کان میں ایک ہیرا اتنا بیش قیمت ہو سکتا ہے کہ وہ کان زرہ برابر قیمت کی رہ جائے۔
دنیا ایک ایسی دوکان ہے جہاں ضرورت کے مطابق داخل ہوا جاتا ہےاور پسند کی شے لے کر نکل جانا ہوتا ہے۔ اگر دربند ہو تو دستک سے کھلوایا نہیں جاتا بلکہ ازخود کھلنے کا انتظار کیا جاتا ہے۔
جب منزل تک پہنچنے کے راستے جدا جدا ہوں تو آسان راستوں پر رک کر پیچھے رہ جانے والوں کا انتظار نہیں کیا جاتا بلکہ سفر کو جاری رکھا جاتا ہے۔ کہیں ہاتھ دے کر بٹھا نہ دیئے جاؤ۔ قدم گن کر فاصلے طے نہیں کئے جا سکتے اور نہ ہی لہریں گن کر سمندر پہ سفر کئے جا سکتےہیں۔ جو انا و خودداری کی بھٹی میں صرف جلنے کا ایندھن بنے رہنے کو ترجیح دیتے ہوں وہ وقت سے پہلے سوکھ کر دھوئیں میں ڈھلنا نصیب سمجھتے ہیں۔
لفظ جب شناخت بن جاتے ہیں تو لفظ کہانی ختم ہو جاتی ہے ایک سوچ زندہ ہو جاتی ہے۔ پھر آنے والے بنا دستک کے اندر داخل ہو جاتے ہیں اور باہر نکلنے والوں کے پیچھے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔
محمودالحق
0 تبصرے:
Post a Comment