Jul 6, 2016

خوشیوں کے پل

زندگی میں خوبصورت پل آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ جن جن پر گزرتے ہیں وہ یادوں کی صورت کینوس پر منتقل ہو جاتے ہیں۔ مگر عید سعید ایسا خوبصورت تہوار ہے جو ابا کے ساتھ عید گاہ جاتے ہوئے جو مزا دیتا تھا اب بچوں کے ساتھ جاتے ہوئے بھی وہی احساس طبیعت پر حاوی رہتا ہے۔ اماں کو گھر پہنچتے ہی عید مبارک کہنا اور عیدی وصول کرنا بہت بھلا لگتا تھا۔ آج عید کی نماز پڑھ کر گھر پہنچتے بچوں کی اماں سے عید مبارک سننا اور بچوں کو عیدی دینا اتنا ہی بھلا لگتا ہے۔ رمضان میں ناپ تول کر کھانے پینے کے بعد کھلی چھٹی پا کر عید کا دن دستر خوان پر انواع و اقسام کے لذیز کھانوں کی خوشبو سے معدہ کو دعوت بد پرہیزی پر آمادہ کر لیتا یے۔ عید کی خوشیاں دائمی ہیں جو کبھی ماند نہیں پڑتیں بلکہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ تازہ دم اور جوان رہتی ہیں۔ تمام اختلافات کو بھلا کر ملنے والے ہر شخص کو گلے لگایا جاتا ہے۔ جن سے سال میں 363 دن پاس سے گزر جایا جاتا ہے انہیں اس پر مسرت موقع پر ڈھونڈا جاتا ہے۔ 
میرے اللہ نے جس اجتماع کو ہمارے لئے خوشیوں اور رحمتوں کا وسیلہ بنا دیا وہ ہماری ہر رسم رواج و روایت سے مقدم ہیں۔ ایسی خوشی ہمیں کسی اور اجتماع سے حاصل نہیں ہوتی جو بچپن سے بڑھاپے تک دیر پا بھی ہو۔ یہ ایسا دن ہے جب تک مہمان آتے رہیں مہمان نوازی ہوتی رہے انہیں بار بار کھانے کی دعوت دی جاتی رہے۔ میزبانی سے جی نہیں بھرتا۔ وگرنہ تو سارا سال صاحب کی دفتری مصروفیت،بچوں کی ٹیوشن مغز ماری پھر امتحانات ، بیگم صاحبہ کا سر درد مہمانوں کی آمدورفت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ گھر میں روز کی تکرار آج کیا پکا لیں صاحب کا کہنا جو جی میں آئے تو بیگم کا کریلوں سے کڑوا پانی نچوڑنا مزاج کی گرمی ظاہر کرتا ہے۔ 
یہ دن بھی خوب ہے کوئی نہیں پوچھتا کیا پکائیں،کوئی نہیں بتاتا کہاں جائیں۔ بس خودکار مشین کی طرح ہر کام خود بخود مکمل ہو کر پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے۔ اللہ تبارک تعالی ہماری زندگیوں میں عید جیسی خوشیوں کی بھرمار کر دے جو یکے بعد دیگرے ہمیں خوشیوں کے پل سے جوڑ کر رکھتی رہے۔ ہم جدا ہونا بھی چاہیئں تو نہ ہو پائیں۔ جس طرح آج ایک مسلمان قوم کی حیثیت سے عید سعید کے تہوار کو مذہبی رواداری سے منایا جا رہا ہے ہمارے روزمرہ کے معمولات زندگی بھی ایسے ہی فرقہ بندی اور منافرت سے پاک خوشیوں سے بھرپور ہوں تو ہم بجا طور پر قرآن و سنت پر عمل کرنے والے ایمان والے کہلانے کے حقدار ہوں گے۔ 
جہاں جہاں نماز عید کے روح پرور اجتماعات ہو چکے انہیں عید مبارک۔ سب ایک دوسرے سے پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ آج کی پکا؟
ہماری عید کی نماز چار گھنٹے بعد ہے تو ہم یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ کی پکا؟ کیونکہ ڈھکن اٹھانے سے مرغن غذائیں برا منائیں گی۔ صبح خوشبو کے بغیر کھانے کی پزیرائی نہیں ہو پائے گی۔

محمودالحق

1 تبصرے:

سیما آفتاب said...

خوبصورت تحریر ۔۔۔ عید مبارک

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter