Nov 25, 2018

کائنات کے سربستہ راز - 2

چین کے بادشاہ نے   2300  قبل مسیح دریا سے باہر نکلتے کچھوے کی پشت پر مختلف ڈاٹ کی ایسی ترکیب   دیکھی جو اپنی نوعیت میں بہت خاص تھی۔ چاروں اطراف سے ان ڈاٹس کی تعداد 15 تھی۔ جسے لو شو میتھ میجک کا نام دیا گیا۔

پچھلی کئی صدیوں سے ریاضی دان اس پر بہت کچھ لکھتے آ رہے ہیں۔ لیکن  آج میرا موضوع بہت خاص ہے کیونکہ میری سوچ نے 4300 سال قبل کچھوے کی پشت پر لکھے اعداد کے فارمولہ کو ان فولڈ کیا ہے۔ اس کی حقیقت میری نظروں کے سامنے ایسے کھل کر آئی ہے کہ آج میں حیرانگی میں مبتلا ہوں۔ 
آج سے دس سال پہلے جب میں نے لفظوں کے ملاپ سے در دستک لکھی تو شاعری کے ترازو میں میری شاعری بے وزن ہو گئی۔ جسے میں نے سنبھال کر سٹور میں رکھ دیا۔ کیونکہ میں انسانوں کے بنائے باٹ سے اپنے لفظوں کو برابر نہ کر  سکا۔ نیچے لنک میں ایک ایسی ہی مثال  ہے۔ 
آج میں اپنے مالک کائنات رب العالمین  کی رحمت و فضل پر سجدہ شکر بجا لاتا ہوں کہ اس نے مجھے وزن اور بیلنس کے اس مقام تک رسائی عطا فرمائی جو کسی انسان کے خودساختہ ہم وزن ردیف قافیے کے ترازو میں تولنے کے لئے نہیں رکھی جا سکتی۔
میں اپنے خیال میں آئےایک فارمولہ کو میتھ میجک جانتے ہوئے اعداد کو ٹٹولنے میں سر کھجانے کی نعمت سے بھی محروم ہو گیا تو رفتہ رفتہ مجھ پر یہ آشکار ہونا شروع ہوا کہ اس کے اندر تو الگ دنیا آباد ہے۔ جہاں اعداد آپس میں گتھم گتھا نہیں ہوتے بلکہ انتہائی رازداری سے اپنے اپنے راستوں پر  نکل جاتے ہیں ۔ 
دیکھنے میں ایسے ،جیسے دو چھوٹی بچیاں ایکدوسرے کے دائیں ہاتھ میں دایاں ہاتھ اور بائیں ہاتھ میں بایاں ہاتھ پکڑے  ہاتھوں کے گرد گھومتی ہیں۔میں نے  انہیں مختلف زاویوں سے بنایا۔ فی الوقت چند ایک تصاویر دکھانے پر اکتفا کروں گا ۔ 
کیونکہ یہ بہت زیادہ تفصیل کی طلبگار ہے۔ جسے میں نے ترتیب دینا شروع کر دیا ہے۔

 7 x 7 Math magic circle


7 x 7 Math magic circle




9 x 9 Math magic circle



9 x 9 Math magic circle




یہاں سوال یہ پیدا نہیں ہوتا کہ میں نے کیا ریسرچ کیا  اور میتھ میجک سکوئر سے کیا نتیجہ برآمد ہوا بلکہ اہم یہ ہے کہ کہاں جا پہنچا۔ میں انجانےمیں اپنی تحقیق میں  سوچ کے کسی رخ پر چلتا چلتا جب بہت آگے چلا گیا تو فارمولہ کے خیال کے میرے ذہن میں آنے جیسے ایک نئے خیال نے مجھے صدیوں پیچھے دھکیل دیا۔  جب میں نے اپنے حاصل کئے گئے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے لو شو، کچھوے کی پشت پر بنے میتھ میجک کو اس پر اپلائی کیا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ میں نے دریافت کی  جوایک بلند عمارت کھڑی کی ، کچھوے کی پشت پر بنے ڈاٹس کے سامنے ڈھیر ہو گئی۔ 
جو کچھ میں نے بنایا وہ تو کچھوے کی پشت پر بنے ڈاٹس کا عکس نکلا۔ جو کچھ میں نے دریافت کیا جو گرافکس بنائے وہ سب لوشو ،کچھوے کے فارمولہ کا عکس نکلے۔ نہ ایک ہندسہ اُدھر اور نہ ہی ایک ہندسہ اِدھر۔ بلکہ جسے میں اپنا کارنامہ سمجھ کر  شئیر کرتا رہا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ میں دراصل اپنے کسی فارمولہ پر تحقیق نہیں کر رہا تھا بلکہ 4300 سال قبل کچھوے کی پشت پر بنے  میتھ میجک  ڈاٹس اللہ تبارک تعالی کی رضا سے میرے ذہن میں کھل رہے تھے۔
 میں کوئی ریاضی دان تو ہوں نہیں ، بس ایک معمولی سا انسان ہوں جو اپنے  مرحوم بوڑھے والدین کی دعاؤں کی چھاؤں تلے رحمتوں کی آغوش میں ہوں۔
انشاءاللہ میں اپنی اگلی تحریر جو کہ طویل ہونے کی وجہ سے زیادہ وقت کی متقاضی ہے ، میں خوبصورت گرافک ڈیزائین کی اپنی تحقیق کو قلمبند کروں گا جو کہ صرف کچھوے کی پشت پر بنے خوبصورت ڈاٹس  کے فارمولہ  کا عکس ہے۔
میرا اس میں کوئی کمال نہیں ، یہ صرف اسی کی رضا ہے جو ہم سب کا مالک و مختار ہے، ایک دن اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
آج  ایک بار پھر اپنی ایک حمد دہرانے کو جی چاہتا ہے۔۔۔۔


تیری عنایات ہیں اتنی کہ سجدہء شکر ختم نہ ہو
تیرے راستے میں کانٹے ہوں میرا سفر ختم نہ ہو
پھیلا دوں روشنی کی طرح علم خضر ختم نہ ہو
توبہ کرتا رہوں اتنی میرا عذر ختم نہ ہو
سجدے میں سامنے تیرا گھر ہو یہ منظر ختم نہ ہو
تیری رحمتوں کی ہو بارش میرا فقر ختم نہ ہو
مجھ ادنیٰ کو تیرے انعام کا فخر ختم نہ ہو
جہاں جہاں تیرا کلام ہو میرا گزر ختم نہ ہو
تیری منزل تک ہر راستے کی ٹھوکر ختم نہ ہو
آزمائشوں کے پہاڑ ہوں میرا صبر ختم نہ ہو
زندگی بھلے رک جائے میرا جذر ختم نہ ہو
وجود چاہے مٹ جائے میری نظر ختم نہ ہو
تیری اطاعت میں کہیں کمی نہ ہو میرا ڈر ختم نہ ہو
بادباں کو چاہے کھینچ لے مگر لہر ختم نہ ہو
خواہشیں بھلا مجھے چھوڑ دیں تیرا ثمر ختم نہ ہو
تیری عبادت میں اتنا جیئوں میری عمر ختم نہ ہو
بھول جاؤں کہ میں کون ہوں مگر تیرا ذکر ختم نہ ہو
جاگوں جب غفلتِ شب سے میرا فجر ختم نہ ہو
تیری محبت کا جرم وار ہوں میرا حشر ختم نہ ہو
تیری حکمت سے شفایاب ہوں مگر اثر ختم نہ ہو
میرے عمل مجھ سے شرمندہ ہوں مگر فکر ختم نہ ہو
منزلیں چاہے سب گزر جائیں مگر امر ختم نہ ہو
سپیدی و سیاہی رہے نہ رہے مگر نشر ختم نہ ہو
دن چاہے رات میں چھپ جائے مگر ازہر ختم نہ ہو

طلبگار دعا: محمودالحق

3 تبصرے:

سیما آفتاب said...

مجھے سمجھ نہیں آئی آپ کی تحقیق ہو سکتا ہے اگلی تحریر میں یہ عقدہ حل ہو ۔۔۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم علم میں جتنی ترقی کرتے ہیں وہ ہمیں خالق سے قریب لے جانے کا راستہ بن جاتی ہے۔ اگلی تحریر کا انتظار رہے گا ۔۔ جزاک اللہ خیرا

سیما آفتاب said...

تیری عبادت میں اتنا جیئوں میری عمر ختم نہ ہو
بھول جاؤں کہ میں کون ہوں مگر تیرا ذکر ختم نہ ہو

سبحان اللہ

Mahmood ul Haq said...

جی آپ نے درست فرمایا تخلیق اپنے خالق کا راستہ دکھاتی ہے۔ انشااللہ جلد ہی اگلی تحریر شئیر کروں گا آسان فہم رکھنے کی کوشش ہے میری کیونکہ موضوع بالکل نیا ہے میرے لئے بھی اور پڑھنے والوں کے کے لئے بھی۔

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter