Nov 25, 2018

تلاشِ سخن


جس آگ سے بچنے میں بڑے بزرگ بچوں کو  محفوظ رکھتے ہیں ۔ وہی بچہ بڑا ہو کر فکر و ایمان کی بھٹی سے کندن بن جاتا ہے یا پھر گناہوں کی لت کا شکار ہو کر انگاروں سے کھیلنے لگتا ہے۔ بلندیاں چھونے پر نیچے دیکھ کر چلنا  اس کے لئےمحال ہو جاتا ہے۔ 
پتھر کنکر اور شیشے کی کرچیوں سے پاؤں بچائے جاتے ہیں۔ لیکن کبھی  چیونٹیوں کے سر کچلنے کے احساس کا پاس سے گزر بھی نہیں ہوتا۔ چند دہائیوں کی ایک زندگی کو فلمایا جائے تو تین گھنٹے میں ختم ہو جاتی ہے۔ہر انسان اپنی نیت کا پھل پا لیتا ہے چاہے اچھا یا برا۔ سولہویں صدی نے انسان کو مشین سے روشناس کرایا۔ جو بڑھتے بڑھتے زندگی کے لئے لازم ہو گیا۔ ہاتھ کا استعمال کم ہوتے ہوتے  مشینوں پر ٹھہر گیا۔ جہاں کمانے والے  سےزیادہ کھانے والے ہوں تو  صرف دو ہاتھ کافی نہیں ہوتے۔ محنت کش ہاتھ جھولی بھر کر دانے گھروں کو لاتے تھے۔ آج کل جھولی پھیلانے والے فقیر کہلاتے ہیں۔  لباس میں جتنی جیبیں زیادہ ہوں ، اتنی بھر جاتی ہیں۔ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے کندھے یا ہاتھ میں بیگ یا بریف کیس بھی رہتا ہے۔ زندگی تو ایک چیک کی مانند ہے پیسے والوں کے کیش ہو جاتے ہیں اور غریبوں کے باؤنس ہو نے جیسے۔
جب دعوی عمل سے بڑا ہو تو دراز قد والا بھی چھوٹا دکھائی دیتا ہے۔زندگی کو جاننے والے راز زندگی پا جاتے ہیں۔پھر جینا انہیں اتنا مشکل ہو جاتا ہے کہ انسانوں پر عدم اعتماد کی وجہ سے فطرت سے دل لگا لیتے ہیں۔ کیونکہ انسان کا  چلن کسی فارمولہ کا محتاج نہیں۔ وہ اپنے لئے دودھ شہد کی نہر خود کھودتا ہے۔ دینا نہ بھی چاہے  تو اس کے بس میں ہےمگر دکھانے کا مکمل اختیار رکھتا ہے کیونکہ چھپانا اس کے بس میں نہیں۔ زندگی گزارنے والے سینکڑوں ملتے ہیں مگر جینے والے بہت کم اور وہ بھی عدم اعتماد رکھنے والے۔
ایک مزدور کو جب دیہاڑی نہیں ملتی تو اس کے بچے بھوکے سوتے ہیں۔ لیکن جب معاشرے کا کاروباری طبقہ منافع خوری کے دیہاڑی دار ہو جائیں اور ہاتھ لگے پیسے کو اچھے دن یا دیہاڑی کے نام سے کامیابی کا جشن منائیں تو ایک مزدور کے خون پسینے کے کمائے ہوئے چند سو روپے  ہاتھوں کے پسینے میں شرابور ہو کر سسک کر رہ جاتے ہیں۔
درسگاہوں میں استاد تعلیم وہی دیتے ہیں جنہیں سلیبس میں رکھا جاتا ہے۔ امتحان وہی ہوتا ہے جو پڑھایا جاتا ہے۔محنت کے صلے پاس یا فیل کی صورت میں نکلتے ہیں۔ علم درسگاہوں اور استادوں کا محتاج نہیں ہوتا۔ وہ تو پہاڑوں پر برسنے والی اس بارش کی مانند ہے جو اپنے راستے خود بناتی ہوئی  آبشاروں، ندیوں ،دریاؤں سے گزرتی سمندر تک جا پہنچتی ہے۔

محمودالحق

2 تبصرے:

سیما آفتاب said...

بہت عمدہ ۔۔ جزاک اللہ خیرا
آپ کی تحریر سے اقتباس درج ذیل لنک پر پوسٹ کیا ہے
https://seems77.blogspot.com/2018/11/raaz-e-zindagi.html

Mahmood ul Haq said...

شکریہ

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter