Nov 5, 2024

درد کم نہیں ہوتا

 خزاں کی تیز ہواؤں میں سوکھے پتے زمین پر تلملاتے اُڑتے گرتے کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر گھسٹتے ٹوٹتے بے بسی کے عالم تنہا میں بظاہر موسم کی تبدیلی کی نوید سمجھے جاتے ہیں لیکن درحقیقت بھرپور زندگی کی توانائیوں کے اختتام پر اپنے اختتام کے سفر میں روندے و رگڑے جاتے ہیں۔آکسیجن دینے والے اور کاربن ڈائی اکسائیڈ لینے والےانسانی بستیوں میں توانائی کھونے پرشاخ کی بے اعتنائی سے بے پرواہ احسان جتانے سے لاپرواہ  مٹی سے بغلگیر ہونے کی تمنا میں ریزہ ریزہ ہو کر اپنے وجود تحلیل کرنے کے عمل جراحی سے ایک دردناک انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔
زندگی کا سفر صعوبت سے خالی نہیں ہوتا۔ بچپن لڑکپن کی طرف بڑھتا ہے تو ماضی ایسے کیڑے کی مانند ساتھ جڑ جاتا ہے  جو کسی کونے کھدرے میں چھپ کر حال کی انرجی سے قوت حاصل کرتا ہے اور کیڑوں کی ایک ایسی فوج تیار کرتا رہتا ہے جو نوجوانی سے ادھیڑ عمری تک پوری طرح فتح یاب ہو کر شریانوں کے راستے برین کے کونوں کھدروں سے نکل کر سسٹم پر غلبہ پا لیتا ہے۔ جس سے چھٹکارا پانا شعور کے بس کی بات نہیں رہتا۔ یہ ایک ایسی خفیہ ایجنسی کی طرح کام کرتا ہے جس کا اس ملک کے باسیوں کو بھی علم نہیں ہوتا۔
بڑھاپے میں سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت اپنی کم ترین سطح پر ہوتی ہے۔ بچپن افزائش نسل انسانی کے گھروندے میں خوف و سراسیمگی کے زیراثرایسی سرنگیں کھودتا رہتا ہے جو بظاہر پہاڑ دکھنے والے برین کے اندر سالہا سال کی محنت سے اپنے لئے طویل راستے بناتا رہتا ہے۔ جیسے ہی سوچ چوٹیوں سے ڈھلوانوں میں اترتی ہے تو سرنگیں اس سے پہلے وہاں پہنچ چکی ہوتی ہیں۔
بچپن کم علمی کی شناخت رکھتا ہے لیکن خوف کے سائے گھمبیر ہوتے ہیں جو خاموشی سے اپنے کام میں جتے رہتے ہیں۔ یہ کام کرنے سے رکتے نہیں ہیں بلکہ وسوسے اور خوف کی دیواریں تعمیر کرتے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ انسان سمجھتا ہے کہ میں نے سفر طے کر کےمنزل پالی لیکن سرنگیں اور خندقیں کھودنے والا یہ کیڑا انتہائی مہارت اور چالاکی سے اپنی فوج میں نئی بھرتی کرتا رہتا ہے۔ یہ اپنی آخری جنگ تب لڑتا ہے جب اسے یقین ہو جاتا ہے کہ اس کا مدمقابل لاغر و کمزور ہو چکا ہے۔ یہ آخری جنگ وہ ہمیشہ جیت جاتا ہے۔ پہلی شکست اس پہاڑ کو دیتا ہے جس کے اندر سرنگیں بناتا ہے۔ پھر ارد گرد مضبوط حصاروں کو توڑنے کے لئے اپنی پوری توانائیاں خرچ کر کے قریب ترین سہارا بننے والے مضبوط پتھروں کے نیچے سے زمین کھینچ کر اپنے سے دور کر دیتا ہے۔
ظلم ،زیادتی ،حسد ،رقابت ،نفرت اور خوف کے لامتناہی سلسلوں کے نشیب و فراز میں خندقیں کھود کر وہاں بسیرا کر لیتا ہے۔ نوجوان والدین کے معصوم بچے سخت رویوں اور دنیاوی کامیابیوں کے عشق میں مبتلا اپنے ہم عصروں کے مقابلے کی اُڑان میں پَر باندھ کر چھوڑ دئیے جاتے ہیں۔
بچے دنیاوی کامیابیوں اور کامرانیوں کی بھٹی میں جھونک دئیے جاتے ہیں۔ جہاں کیڑے اپنا ٹھکانہ بنا لیتے ہیں اور برین میں رفتہ رفتہ کیڑوں کی ایک فوج بنا لیتے ہیں۔ بوڑھا ہوتا ہوا انسان اپنے پیچھے ایسا نوجوان چھوڑ جاتا ہے جو حالات کی سختیوں کو کچلتا آگے بڑھتا منزل پانے کی جستجو میں کمر بستہ رہتا ہے۔لیکن کوئی نہیں جانتا کہ انسان کیڑوں سے شکست کھا جاتا ہے۔  جنہیں وہ جانتا تک نہیں لیکن تعلیم و تربیت کے نام پر خوف کے سائے میں پروان چڑھاتا رہتا ہے۔ مائیں بچوں کے سروں سے جوئیں نکالنے پر اکتفا کر لیتی ہیں۔ یہ نہیں جان پاتی کہ نظر نہ آنے والے کیڑے بظاہر کھجلی نہیں کرتے لیکن وجود میں ایسا ڈائنامائیٹ لگا دیتے ہیں جو آتش فشاں کی طرح جب اٹھتا ہے تو وجود کو زیر کر لیتا ہے۔
بچوں کے بالوں پر بہت زیادہ توجہ دینے سے زیادہ بالوں کے نیچے ان سرنگوں میں پائے جانے والے کیڑوں کے قلع قمع کرنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگانےکی ضرورت ہوتی ہے۔  انہیں خوراک رویوں اور حالات سے حاصل ہوتی ہے۔ اچھی خوراک، اچھا لباس اور اچھی تعلیم و تدریس سے الگ بچوں کا محافظ بن کر کیڑوں کی پیدائش کے عمل کو روکا جا سکتا ہے۔
بچے حکم کے پابند اور ہدایت کے تابع بنائے جاتے ہیں جبکہ ان کے اندر سوچ کی ایسی سرنگیں بنانے کی ضرورت ہوتی ہے جو کیڑوں  کو آگے بڑھنے اور ان کی فوج میں اضافہ کے عمل کو روک سکے۔ آتشیں اسلحہ سے لیس ممالک انسانی بستیوں کے لئے تباہی کے سبب سمجھے جاتے ہیں جبکہ اپنے گھروں میں بارود بھرے رویے اتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ نسلوں کو تباہی کے دھانے پر کھڑا کر دیتے ہیں۔
اطمینان پانے کے لئے مطمئن ہونا ضروری ہے۔ مطمئن ہونا تبھی ممکن ہے جب سکون میسر ہو۔ سکون ملنا تبھی ممکن ہے جب خیالات برانگیختہ نہ ہوں۔  خیالات تبھی شانت رہتے ہیں جب ان میں ہیجان پیدا کرنے والے کیڑے نہ ہوں۔ کیڑے تبھی پیدا ہوتے ہیں جب انہیں بچپن سے جوؤں کی طرح نکال باہر  نہیں کیا جاتا۔


تحریر: محمودالحق

در دستک >>

Mar 14, 2024

جستجوئے مقام

موسم کی سختیوں سے بچتے بچاتے دنوں کو پھلانگتے سوچوں کے بستر بچھاتے  زندگی کی تلخیوں سے نبردآزماہوتے دھیرے دھیرے آگے سرکتے ہیں ۔ذمہ داریاں آڑے ہاتھوں لیتی ہیں ارمان تجوریوں میں بند جواہرات کی طرح قید بےبسی میں اندھیروں سے اُلجھتے ہیں ۔زندگی مصور کی تخلیق ہوتی یا شاعر کی معشوق ،قلم سے رنگ بھر دیتے ۔بھیانک خواب کی تعبیر خوبصورت خیال میں نہیں ڈھل پاتی ۔
سالوں بعد بھی درخت چند فٹ اونچائی اختیار کرتے ہیں اور خیال صدیوں کی مسافت طے کر کے بھی حقیقت نہیں بن پاتا۔آسمان نے تو زمین کو آزادی نہ دینے کی قسم کھا رکھی ہے ،انسان اس قید میں کتنا سرشار ہے کہ آسمان پر توجہ نہیں کرتا جو رات میں خواب دکھاتا ہے اور دن میں پریشان حقیقت کے تارے ۔زمین کی سختی سزا سے منسوب ہے جہاں پڑاؤ تفریح و طبع کے لئے نہیں بلکہ حکم عدولی کی سزا ہے۔
پیدائش آدمیت کے لئے پیدائش انسانی نے نقل مکانی کی ،دانش و حکمت کے لئے ظہور عقل کا امتحان لیا ۔جن کے پاس جواب نہیں تھے وہ جھک گئے جس نے عبادت کو علم سے جدا جانا ،تکبر نے اسے نافرمانی کی سولی پرچڑھایا ۔حروف آسان ہوتے تو حروف تہجی امر ہو جاتے، علم ماخذ ہے تو حروف مقدس ۔علم وہ سمندر ہے جو شور میں آگے نہیں بڑھتا بلکہ خاموش رہ کر زمین کی تہہ میں اُبلتے آتش فشاں ٹھنڈے رکھتا ہے۔ جب جینا راستے میں آ جائے تو جان ہلکان ہو جاتی ہے، یہ زندگی ہے جس کا منصب ٹیڑھا ترچھا نہیں صراط مستقیم ہے۔ راستے گر کھلتے نہیں ،تو کیا حالات کا تقاضا ہیں یا سیدھے راستہ پر چلانے کی مشق۔
آج سوال کیے تھے آج ہی جواب دے دئیے ،بچپن سے کہانی شروع کرنی تھی ،انجام کی اطلاع کر دی ۔انسان نے روبوٹ میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا قصہ شروع کیا جو خود کی کاپی ہے۔ نیا تو وہ تھا جس نے ممنوعہ شجر تک پہنچنے کی سعی کی ۔معافی سزا سے مشروط ہے  ،دوسروں کی دنیا اور اپنی زندگی کا مقابلہ اختیار آدمیت کا محتاج ہے ۔بنانے والے نے کیا کوئی کسر چھوڑی جو نئے رنگوں کی آرائش میں سلیقہ بھول بیٹھے۔ آگے بڑھنے کا حکم ہو تو بیٹھ رہنے میں کیا مصلحت ہے ۔خاموش رہنے میں عافیت ہے اگر آواز ارتعاش میں زرہ برابر اضافہ کر لے تو کانوں کے پردے اس فریکوئنسی کو برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ ایک دنیا میں الگ الگ باسی اور تمام جہانوں کا صرف ایک جو آگے بڑھنے پر تھام لیتا ہے اور پیچھے ہٹنے پر جھنجھوڑ دیتا ہے ،چھوڑتا اسے ہے جسے بناتا نہیں جو ڈھل گیا وہ شکنجے میں کس گیا۔
چلنا دستور سے ہے، ملنا مقام سے ہے ،رہنا جواز سے ہے ،جانا حکم سے ہے، آنا مقدر سے ہے ،جینا رضا سے ہے ۔جب اپنا کچھ نہیں تو حساب کیسا ۔ لوٹنا خالی ہاتھ ہو تو چلنے میں سر پر بھاری  گٹھڑی کیسی۔
امانت دار جن کی زمین ہے اسے اوپر لے جانا کیسا !انعامات کی دنیا کرامات کی دنیا سے الگ ہےجو نہ مانگے سے ملتی ہے نہ دینے سے ختم ہوتی ہے ۔شروع ہونے میں تاخیر کہاں ،دیکھنے والی نظر چاہئیے جو ایک پل میں یہاں سے وہاں پہنچا دے۔آنے والے سنبھل کر آتے ہیں ،پانے میں  پھر  بھی مشکل ہے ۔وقت طے کرنے سےمنزل تک مسافت پہنچاتی ہے ،پانے کی جستجو مقام کو سامنے لا کھڑا کرتی ہے ۔پہلادن کوئی نہیں ہوتا ،ہر دن نیا دن ہوتا ہے کیونکہ ایک پیچھے رہ جاتا ہے۔

تحریر!  محمودالحق 
 
در دستک >>
Page 1 of 103123...103Next »Last

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter