Nov 5, 2024

درد کم نہیں ہوتا

 خزاں کی تیز ہواؤں میں سوکھے پتے زمین پر تلملاتے اُڑتے گرتے کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر گھسٹتے ٹوٹتے بے بسی کے عالم تنہا میں بظاہر موسم کی تبدیلی کی نوید سمجھے جاتے ہیں لیکن درحقیقت بھرپور زندگی کی توانائیوں کے اختتام پر اپنے اختتام کے سفر میں روندے و رگڑے جاتے ہیں۔آکسیجن دینے والے اور کاربن ڈائی اکسائیڈ لینے والےانسانی بستیوں میں توانائی کھونے پرشاخ کی بے اعتنائی سے بے پرواہ احسان جتانے سے لاپرواہ  مٹی سے بغلگیر ہونے کی تمنا میں ریزہ ریزہ ہو کر اپنے وجود تحلیل کرنے کے عمل جراحی سے ایک دردناک انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔
زندگی کا سفر صعوبت سے خالی نہیں ہوتا۔ بچپن لڑکپن کی طرف بڑھتا ہے تو ماضی ایسے کیڑے کی مانند ساتھ جڑ جاتا ہے  جو کسی کونے کھدرے میں چھپ کر حال کی انرجی سے قوت حاصل کرتا ہے اور کیڑوں کی ایک ایسی فوج تیار کرتا رہتا ہے جو نوجوانی سے ادھیڑ عمری تک پوری طرح فتح یاب ہو کر شریانوں کے راستے برین کے کونوں کھدروں سے نکل کر سسٹم پر غلبہ پا لیتا ہے۔ جس سے چھٹکارا پانا شعور کے بس کی بات نہیں رہتا۔ یہ ایک ایسی خفیہ ایجنسی کی طرح کام کرتا ہے جس کا اس ملک کے باسیوں کو بھی علم نہیں ہوتا۔
بڑھاپے میں سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت اپنی کم ترین سطح پر ہوتی ہے۔ بچپن افزائش نسل انسانی کے گھروندے میں خوف و سراسیمگی کے زیراثرایسی سرنگیں کھودتا رہتا ہے جو بظاہر پہاڑ دکھنے والے برین کے اندر سالہا سال کی محنت سے اپنے لئے طویل راستے بناتا رہتا ہے۔ جیسے ہی سوچ چوٹیوں سے ڈھلوانوں میں اترتی ہے تو سرنگیں اس سے پہلے وہاں پہنچ چکی ہوتی ہیں۔
بچپن کم علمی کی شناخت رکھتا ہے لیکن خوف کے سائے گھمبیر ہوتے ہیں جو خاموشی سے اپنے کام میں جتے رہتے ہیں۔ یہ کام کرنے سے رکتے نہیں ہیں بلکہ وسوسے اور خوف کی دیواریں تعمیر کرتے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ انسان سمجھتا ہے کہ میں نے سفر طے کر کےمنزل پالی لیکن سرنگیں اور خندقیں کھودنے والا یہ کیڑا انتہائی مہارت اور چالاکی سے اپنی فوج میں نئی بھرتی کرتا رہتا ہے۔ یہ اپنی آخری جنگ تب لڑتا ہے جب اسے یقین ہو جاتا ہے کہ اس کا مدمقابل لاغر و کمزور ہو چکا ہے۔ یہ آخری جنگ وہ ہمیشہ جیت جاتا ہے۔ پہلی شکست اس پہاڑ کو دیتا ہے جس کے اندر سرنگیں بناتا ہے۔ پھر ارد گرد مضبوط حصاروں کو توڑنے کے لئے اپنی پوری توانائیاں خرچ کر کے قریب ترین سہارا بننے والے مضبوط پتھروں کے نیچے سے زمین کھینچ کر اپنے سے دور کر دیتا ہے۔
ظلم ،زیادتی ،حسد ،رقابت ،نفرت اور خوف کے لامتناہی سلسلوں کے نشیب و فراز میں خندقیں کھود کر وہاں بسیرا کر لیتا ہے۔ نوجوان والدین کے معصوم بچے سخت رویوں اور دنیاوی کامیابیوں کے عشق میں مبتلا اپنے ہم عصروں کے مقابلے کی اُڑان میں پَر باندھ کر چھوڑ دئیے جاتے ہیں۔
بچے دنیاوی کامیابیوں اور کامرانیوں کی بھٹی میں جھونک دئیے جاتے ہیں۔ جہاں کیڑے اپنا ٹھکانہ بنا لیتے ہیں اور برین میں رفتہ رفتہ کیڑوں کی ایک فوج بنا لیتے ہیں۔ بوڑھا ہوتا ہوا انسان اپنے پیچھے ایسا نوجوان چھوڑ جاتا ہے جو حالات کی سختیوں کو کچلتا آگے بڑھتا منزل پانے کی جستجو میں کمر بستہ رہتا ہے۔لیکن کوئی نہیں جانتا کہ انسان کیڑوں سے شکست کھا جاتا ہے۔  جنہیں وہ جانتا تک نہیں لیکن تعلیم و تربیت کے نام پر خوف کے سائے میں پروان چڑھاتا رہتا ہے۔ مائیں بچوں کے سروں سے جوئیں نکالنے پر اکتفا کر لیتی ہیں۔ یہ نہیں جان پاتی کہ نظر نہ آنے والے کیڑے بظاہر کھجلی نہیں کرتے لیکن وجود میں ایسا ڈائنامائیٹ لگا دیتے ہیں جو آتش فشاں کی طرح جب اٹھتا ہے تو وجود کو زیر کر لیتا ہے۔
بچوں کے بالوں پر بہت زیادہ توجہ دینے سے زیادہ بالوں کے نیچے ان سرنگوں میں پائے جانے والے کیڑوں کے قلع قمع کرنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگانےکی ضرورت ہوتی ہے۔  انہیں خوراک رویوں اور حالات سے حاصل ہوتی ہے۔ اچھی خوراک، اچھا لباس اور اچھی تعلیم و تدریس سے الگ بچوں کا محافظ بن کر کیڑوں کی پیدائش کے عمل کو روکا جا سکتا ہے۔
بچے حکم کے پابند اور ہدایت کے تابع بنائے جاتے ہیں جبکہ ان کے اندر سوچ کی ایسی سرنگیں بنانے کی ضرورت ہوتی ہے جو کیڑوں  کو آگے بڑھنے اور ان کی فوج میں اضافہ کے عمل کو روک سکے۔ آتشیں اسلحہ سے لیس ممالک انسانی بستیوں کے لئے تباہی کے سبب سمجھے جاتے ہیں جبکہ اپنے گھروں میں بارود بھرے رویے اتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ نسلوں کو تباہی کے دھانے پر کھڑا کر دیتے ہیں۔
اطمینان پانے کے لئے مطمئن ہونا ضروری ہے۔ مطمئن ہونا تبھی ممکن ہے جب سکون میسر ہو۔ سکون ملنا تبھی ممکن ہے جب خیالات برانگیختہ نہ ہوں۔  خیالات تبھی شانت رہتے ہیں جب ان میں ہیجان پیدا کرنے والے کیڑے نہ ہوں۔ کیڑے تبھی پیدا ہوتے ہیں جب انہیں بچپن سے جوؤں کی طرح نکال باہر  نہیں کیا جاتا۔


تحریر: محمودالحق

در دستک >>

Mar 14, 2024

جستجوئے مقام

موسم کی سختیوں سے بچتے بچاتے دنوں کو پھلانگتے سوچوں کے بستر بچھاتے  زندگی کی تلخیوں سے نبردآزماہوتے دھیرے دھیرے آگے سرکتے ہیں ۔ذمہ داریاں آڑے ہاتھوں لیتی ہیں ارمان تجوریوں میں بند جواہرات کی طرح قید بےبسی میں اندھیروں سے اُلجھتے ہیں ۔زندگی مصور کی تخلیق ہوتی یا شاعر کی معشوق ،قلم سے رنگ بھر دیتے ۔بھیانک خواب کی تعبیر خوبصورت خیال میں نہیں ڈھل پاتی ۔
سالوں بعد بھی درخت چند فٹ اونچائی اختیار کرتے ہیں اور خیال صدیوں کی مسافت طے کر کے بھی حقیقت نہیں بن پاتا۔آسمان نے تو زمین کو آزادی نہ دینے کی قسم کھا رکھی ہے ،انسان اس قید میں کتنا سرشار ہے کہ آسمان پر توجہ نہیں کرتا جو رات میں خواب دکھاتا ہے اور دن میں پریشان حقیقت کے تارے ۔زمین کی سختی سزا سے منسوب ہے جہاں پڑاؤ تفریح و طبع کے لئے نہیں بلکہ حکم عدولی کی سزا ہے۔
پیدائش آدمیت کے لئے پیدائش انسانی نے نقل مکانی کی ،دانش و حکمت کے لئے ظہور عقل کا امتحان لیا ۔جن کے پاس جواب نہیں تھے وہ جھک گئے جس نے عبادت کو علم سے جدا جانا ،تکبر نے اسے نافرمانی کی سولی پرچڑھایا ۔حروف آسان ہوتے تو حروف تہجی امر ہو جاتے، علم ماخذ ہے تو حروف مقدس ۔علم وہ سمندر ہے جو شور میں آگے نہیں بڑھتا بلکہ خاموش رہ کر زمین کی تہہ میں اُبلتے آتش فشاں ٹھنڈے رکھتا ہے۔ جب جینا راستے میں آ جائے تو جان ہلکان ہو جاتی ہے، یہ زندگی ہے جس کا منصب ٹیڑھا ترچھا نہیں صراط مستقیم ہے۔ راستے گر کھلتے نہیں ،تو کیا حالات کا تقاضا ہیں یا سیدھے راستہ پر چلانے کی مشق۔
آج سوال کیے تھے آج ہی جواب دے دئیے ،بچپن سے کہانی شروع کرنی تھی ،انجام کی اطلاع کر دی ۔انسان نے روبوٹ میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا قصہ شروع کیا جو خود کی کاپی ہے۔ نیا تو وہ تھا جس نے ممنوعہ شجر تک پہنچنے کی سعی کی ۔معافی سزا سے مشروط ہے  ،دوسروں کی دنیا اور اپنی زندگی کا مقابلہ اختیار آدمیت کا محتاج ہے ۔بنانے والے نے کیا کوئی کسر چھوڑی جو نئے رنگوں کی آرائش میں سلیقہ بھول بیٹھے۔ آگے بڑھنے کا حکم ہو تو بیٹھ رہنے میں کیا مصلحت ہے ۔خاموش رہنے میں عافیت ہے اگر آواز ارتعاش میں زرہ برابر اضافہ کر لے تو کانوں کے پردے اس فریکوئنسی کو برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ ایک دنیا میں الگ الگ باسی اور تمام جہانوں کا صرف ایک جو آگے بڑھنے پر تھام لیتا ہے اور پیچھے ہٹنے پر جھنجھوڑ دیتا ہے ،چھوڑتا اسے ہے جسے بناتا نہیں جو ڈھل گیا وہ شکنجے میں کس گیا۔
چلنا دستور سے ہے، ملنا مقام سے ہے ،رہنا جواز سے ہے ،جانا حکم سے ہے، آنا مقدر سے ہے ،جینا رضا سے ہے ۔جب اپنا کچھ نہیں تو حساب کیسا ۔ لوٹنا خالی ہاتھ ہو تو چلنے میں سر پر بھاری  گٹھڑی کیسی۔
امانت دار جن کی زمین ہے اسے اوپر لے جانا کیسا !انعامات کی دنیا کرامات کی دنیا سے الگ ہےجو نہ مانگے سے ملتی ہے نہ دینے سے ختم ہوتی ہے ۔شروع ہونے میں تاخیر کہاں ،دیکھنے والی نظر چاہئیے جو ایک پل میں یہاں سے وہاں پہنچا دے۔آنے والے سنبھل کر آتے ہیں ،پانے میں  پھر  بھی مشکل ہے ۔وقت طے کرنے سےمنزل تک مسافت پہنچاتی ہے ،پانے کی جستجو مقام کو سامنے لا کھڑا کرتی ہے ۔پہلادن کوئی نہیں ہوتا ،ہر دن نیا دن ہوتا ہے کیونکہ ایک پیچھے رہ جاتا ہے۔

تحریر!  محمودالحق 
 
در دستک >>

Oct 23, 2023

اجنبی خیال

راتوں کی طوالت نے دن کے اجالوں کو گھٹا دیا ہے۔ غموں نے خوشیوں کو جا لیا ہے۔ زندگی چلتی کم ہے سستاتی زیادہ ہے۔خوشیوں بھرا بچپن مست جوانی میں ڈھل جاتا ہے۔آنکھ میں نشہ بھر جائے تو قدموں میں اُٹھان اور گردن میں اکڑاؤ آ جاتا ہے۔
ایک عمر پانے کی آرزو میں گزر جاتی ہے۔ملنے پر پلکیں گر جاتی ہیں۔ تلاش کے سفر میں ہم سفر نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ منزل سامنے پا کر بھی پہنچ نہیں پاتے کیونکہ گمان یہ رہتا ہے کہ منزل ہمیں پانے کے لئے آگے بڑھے گی۔ طوفان میں گھری ہچکولے کھاتی ناؤ لہروں سے پوچھے تباہی تو ہمارے اوپر آئی آپ کیوں ہم سے لپٹ لپٹ کر روئے۔
زندگی کو جاننا جتنا آسان ہے اسے پرکھنا اتنا ہی مشکل۔ پتھروں سے جمے پہاڑ صرف زلزلوں سے تھرکتے ہیں، بارش کے قطروں سے گرتے پڑتے مٹی کے تودوں جیسے نہیں۔ ماں کی محبت کا انداز الگ، باپ کی شفقت کا احساس سایہ جیسا۔
کامیابیوں اور خوشیوں کے حصول کے لئے دعاؤں پر انحصار کیا جاتا ہے۔ جب اپنی دعا پر یقین کم پڑ جائے تو نیک انسانوں سے دعاؤں کے لئے التجا ءو التماس کی جاتی ہے۔ دعاؤں کی قبولیت کا ایک وقت مقرر ہے۔ کامیابی محنت کا ثمر ہے تو ناکامی غلطیوں کا خمیازہ۔
 حالانکہ اچھی یا بری حکمت عملی اور اس کے نتائج احساس و تخیل سے بہت دور ہوتے ہیں۔ جسے جو حاصل ہو جاتا ہے وہ فوری طور پر مارکیٹ میں آنے کے لئے بیتاب ہو جاتا ہے۔خزانوں کے متلاشی دکھاوے اور شہرتِ تمنا سے بچ نہیں پاتے۔ تسکین انا کے لئے جام تحسین و تعریف ساقی سے بھر بھر لیتے ہیں۔طوفان جتنی تیزی سے اُٹھتے ہیں ویسے ہی گزر جاتے ہیں۔جو سنبھال لیتے ہیں وہ پا لیتے ہیں۔ جو خوشبو محسوس کر لیتے ہیں وہ رنگ چھوڑ دیتے ہیں۔
 جو لفظ تراشے جاتے ہیں وہ احساس سے کٹ جاتے ہیں۔اندر کی کیفیت ظاہری خدو خال سے آشنائی پیدا کر لیتی ہے۔لفظ آنکھوں میں جگہ پا لیتے ہیں۔ دل میں اُترنے سے پہلے اجنبی ہو جاتے ہیں۔
 گل گلستان میں دیر تک کھلتا اور مہکتا رہتا ہے۔ گلدستہ میں ڈھل کر رسم بن کر جلد مرجھا جاتا ہے۔

تحریر: محمودالحق

در دستک >>

Aug 20, 2023

دانش کی روشنی، علم کا سمندر

حکمت و دانائی ایک ایسی روشنی ہے جس کا پھیلاؤ وسیع ہے اور رکاوٹ ہونے سے وہیں جمع نہیں ہوتی بلکہ منعکس ہو کر راستہ بدل لیتی ہے جبکہ  علم سیکھنا پڑھنے لکھنے سننے سے جڑا ہے جو پانی کے بہاؤ کی مانند ایک محدود راستہ میں سفر پر گامزن رہتا ہے جہاں رکاوٹ ہو تو اپنی طاقت کو وہیں پر جمع کر کے زور میں اسی مقام کو تختہ مشق بناتا ہے۔ 
آج کا موضوع بہت خاص ہے کیونکہ یہ کتابوں سے حاصل مواد پر مبنی نہیں بلکہ حقیقت شناسی کے علم لا محدود سے اخذ خزینہ نور ایمان  میں یقین پختہ پر انحصار کا نتیجہ ہے۔ سیاہی میں ڈھل کر کاغذ پر ڈھلنے والے الفاظ پانی کی فطرت میں بہتے ہیں جو لہروں کی مانند زورو شور سے ریت کے زروں پر ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ پانی اپنی  منزل کی سمت کاتعین رکھتے ہیں اور اپنی حدود بھی  پہچانتے ہیں۔ اونچائی سے کنارہ کرتے ڈھلوانوں میں راستہ بناتے ، تباہی مچاتے آگے بڑھتے ،بخارات کی صورت زمین میں جزب ہوتے ہوئے کہیں ختم ہو جاتے ہیں۔
روشنی اپنی راہ میں آنے والوں پر زور زبردستی نہیں کرتی بلکہ منعکس ہو کر اپنا راستہ بدل لیتی ہے اور اپنے سفر کو آگے بڑھانے کے عمل کی راہ میں رکاوٹ نہیں آنے دیتی۔بند کواڑ کے پیچھے دروازوں کھڑکیوں کے معمولی سوراخوں سے اندر جھانک لیتی ہے لیکن طاقت کے استعمال سے اجتناب برتتی ہے دروازہ کھلنے پر اودھم نہیں مچاتی بلکہ اتنی ہی روشنی پھیلاتی ہے جتنی اردگرد کھلی جگہوں کو دیتی ہے۔
علم سمندر ہے جو لفظوں کی سیاہی میں لکھا جاتا ہے پڑھنے والے کے اندر بھی پانی کی مانند سیاہی بن اترتا ہے۔کبھی ہیجان پیدا کرتا ہے کبھی اضطراب کبھی سراسیمگی تو کبھی اکتاہٹ۔ لہروں کی مانند پانی کی فطرت سے استفادہ کرتا ہے۔ الفاظ کا زخیرہ بڑھ جائے تو تکبر کا مادہ پیدا کرتا ہے۔ بند کواڑوں پر زور زور سے دستک دے کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ دروازہ کھلنے پر باہر جمع طوفان کو اندر دھکیل دیتا ہے چاہے اندر والوں کا سانس ہی کیوں نہ رک جائے۔ الفاظ کا چناؤ ابتدائیہ میں بلند لہروں کی مانند دھکیلتا   ریت کے زروں تک اختتام پزیر ہو جاتا ہے۔ 
حکمت و دانائی حسنِ فطرت ہے جو روشنی کی محتاج ہے۔ ایسی روشنی جو اپنی طاقت کو یکجا نہیں کرتی ۔ آگے بڑھتے راستہ کٹنے پر پانی کی طرح زور زبردستی نہیں کرتی بلکہ خاموشی سے ادھر ادھر سمٹ جاتی ہے جتنا کھلا راستہ ملتا جاتا ہے اتنا ہی آگے بڑھ جاتی ہے۔ اپنی حدود کو پھیلاتی آگے بڑھنے کے عمل میں ہر رکاوٹ سے نبردآزما نہیں ہوتی بلکہ برابر بانٹنے کے عمل سے راستے ہموار کرتی ہے اور روشنی پھیلاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف اس قدر طاقتور ہے کہ ایک محدب عدسے میں سے اسی روشنی کو گزارا جائے تو آگ لگا کر جلا دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔  
دنیاوی علوم پانی سے بنی سیاہی کی تاثیر سے بھرپور علمیت کی معراج رکھتے ہیں۔ جہاں جس نے جتنا چاہا اتنا اپنے کلر میں رنگ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ کتابیں اپنے اندر طرز تحریر کے بہاؤ میں جگہ جگہ رکاوٹیں عبور کرتی نظر آتی ہیں۔ کتابوں کا حجم اتنا ہوتا ہے کہ بوجھ بن جاتا ہے۔ چونکہ لکھنے والے بھی لفظوں کا زخیرہ حروف تہجی کی پہچان کے ساتھ اپنے وجود میں سموئے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لئے تحاریر اپنے مالک کی ملکیت کا پردہ چاک کرتی دکھائی دیتی ہیں۔  
جبکہ حکمت و دانائی کا علم سیاہی سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ روشنی کی مانند اترتی ہے نور کی مانند پھیلتی ہے۔ یہ علم نہیں جو وسیلہ کا محتاج ہو ، یہ قلم نہیں جو سیاہی کا محتاج ہو، یہ کاغذ نہیں جو حروف تہجی سے آراستہ ہو۔یہ ایسی روشنی ہے جو چاند پر پڑتی ہے تو اسے چاندنی بنا دیتی ہے۔زمین پر پڑتی ہے تو اسے سرسبز بنا دیتی ہے اور خوشبو سے مہکا دیتی ہے۔ یہ   پانی کی طرح راستہ بناتی نہیں روشنی کی مانند راستہ دکھاتی ہے۔ جہاں ہونے کا احساس نہیں ہوتا ، نہ ہونے کا احساس  جاگزیں ہوتا ہے۔ جہاں علم سے بہرہ مند ہونے کی بجائے بےعلم  ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ بہت کچھ جاننے کے علم تکبر کی بجائے کچھ نہ جاننے کا احساس بڑھ جاتا ہے۔
انسان سینکڑوں ہزاروں کتابیں پڑھ کر اپنی ذات کو پہچاننے کے عمل سے علمی استعداد بڑھاتا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے، وہ کھونے کے سفر پر گامزن ہو جاتا ہے۔ جاننا یہ نہیں کہ میرے اندر کیا ہے، کتنا علم ہے، کتنی طاقت ہے، کتنا حسن ہے بلکہ یہ ماننا ہے کہ   یادداشت کے بھروسے پر  لفظوں کی پہچان نے کتنا سفر طے کروایا جو لحد پر پہنچا تو ختم ہو گیا۔
جب تک علمی برتری کا بھوت سر پر سوار رہتا ہے، حکمت و دانائی کی رنگین خوبصورت تتلیاں قریب نہیں آتیں۔ مَیں کی پوشاک پہنی رہے تو روشنی کی کرنیں انتظار میں ٹھہر جاتی ہیں۔ ذات کے اندر مَیں کی تلاش میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔ جو علم کی سیاہی سے الفاظ کے ترازو میں تولی جاتی ہے۔
کتابوں میں فاصلے ماپ کر لکھے جاتے ہیں درحقیقت انہیں پہلے پاؤں سے تراشا گیا ہوتا ہے پھر نقطوں کو ملا کر  ایک نقشہ ترتیب پاتا ہے۔جنہیں یہاں تک پہنچ کر ہونے یا نہ ہونے کے فرق کو تلاش کرنے میں کچھ دقت ہے تو انہیں ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں اور ایک مثال سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ انسانی دماغ بھی کمپیوٹر اور مختلف اپلیکیشن کی طرح ہی ایک مشین کی مانند کام کرتا ہے۔ جتنا اسے دیا گیا وہ سب فولڈر بن کر اپنی اپنی جگہ پر محفوظ ہے۔
گلاب کے  سرخ پھول کا تصور کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آنکھیں بند کر لیں
اپنے پسندیدہ کھلاڑی کا تصور کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھیں بند کر لیں
اپنے پسندیدہ فلمی ہیرو کا تصور کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آنکھیں بند کر لیں
کسی اداکار کو ذہن میں لائیں جو ولن کا کردار نبھاتا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھیں بند کر لیں
کسی ایک سیاستدان کا خاکہ ذہن میں لائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھیں بند کر لیں
یہ رہا انسانی دماغ کا  حساب و شمار  Algorithm
جب پھول کو سوچا تو کئی طرح کے پھول ذہن میں ابھر کر آئے ہوں گے۔
کھلاڑی کا تصور کرتے ہی دماغ نے بے شمار کھلاڑیوں کا خاکہ سا بنا دیا ہو گا۔
اسی طرح ہیرو کے ساتھ کئی دوسرے ہیروز اور ولن کے تصور کے ساتھ کئی اور ولن بھی دماغ نے روشن کر دئیے اور آخر میں سیاستدانوں کا ڈھیر دماغ میں گھوم گیا ہو گا۔دماغ نے کہیں بھی دو متضاد کو اکٹھا نہیں کیا ہو گا۔ ہیرو کے ساتھ ولن اور پھول کے ساتھ کانٹے نہیں دکھائے ہوں گے۔انسانی برین نے کچھ نیا نہیں دکھایا جو اس میں محفوظ ہے اس نے اسی فولڈر کو کھول دیا۔
جو برین میں نہیں ہوتا اس پر وہ خاموش ہو جاتا ہے۔   دنیا بھر میں لاکھوں لائیبریریاں کتابوں سے بھری پڑی ہیں۔ جن کے لکھنے میں قلم کاغذ کا استعمال کثیرہ ہوا ہے۔
اور ایک کتاب ہم سب کے گھروں میں ہے جو قلب پہ اتری ہے جو علمیت پر انحصار نہیں کرتی بلکہ روح پر نور کی صورت روشنی بن اتری اور جن پر نازل ہوئی وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ وہ مقدس کتاب قرآن مجید ہے جو پاک پروردگار کے  خاص محبوب نبی محمد مصطفے ﷺ   (جن پر ہماری جان و مال قربان  )پر وحی کی صورت نازل ہوئی۔   قرآن ہمارے لئے راہ ہدایت ہے ،مشعل راہ ہے،تکریم سبز گنبد کے محبت کے متوالوں کے لئے ایک انعام ہے۔ 


تحریر! محمودالحق


در دستک >>

Mar 14, 2023

سفر در سفر کہانی

آج پھر ایک سفر پر گامزن ہوں۔ زندگی کبھی رکتی تو کبھی چلتی ہے،خیالات سستانے کے لئے بے اعتنائی کی دوا چاہتے ہیں۔حالات جستجو و تمنا کی تحریک میں مبتلائے عشق ہوتے ہیں۔زندگی ایک عجب تماشا ہے جنہیں ڈھونڈتے ہیں انہیں دیکھتے نہیں ،جنہیں ملتےہیں انہیں جانتے نہیں۔
امرود کے باغات زیادہ توجہ مانگتے ہیں۔عدم توجہ سے کیڑے اپنا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔قلب احساس کی جگہ ہے،آنکھیں تلاش گمشدہ کےپیچھے لگی رہتی ہے۔باڑیں لگا دینے سے فصل محفوظ ہو جاتی ہےلیکن پھل پانے کے لئے جڑوں میں پانی دینا ہوتا ہے۔پودوں کے قریب رہ کرپھول سے پھل بننے تک کے عمل کی نگرانی کی جاتی ہے، تب کہیں جا کرذائقہ و رنگ حاصل ہوتا ہے۔
جب دستک دے دی جاتی ہے تو قفل لگے دروازے کھل جاتے ہیں۔اندر داخل نہ بھی ہوں ملاقات سے شرف یاب ہو جاتے ہیں۔مشکل باتیں سمجھناآسان نہیں ہو سکتا۔زندگی مٹی کی مانند تو نہیں جسے گوندھ کربھٹی میں اینٹ بنا لیا جائے، یہ پہاڑ کا پتھر ہے جسے تراشا جاتا ہےپھر کہیں مورت بنتی ہے۔قدم جب آگے بڑھتے ہیں تو نئی زمین پر پاؤںرکھتے ہیں،پیچھے رہ جانے والی زمین آگے نہیں بڑھتی۔
کھونٹے پہ بندھے جانور چارہ شوق سے کھاتے ہیں لیکن انسان قید      میں بہترین کھانے کے شوق سے محروم رہتا ہے۔
درخت کا سایہ کتنا ہی گھنا کیوں نہ ہو بانسوں پر چھپر ڈال کر ہی بارش سےبچا جا سکتا ہے۔پکی سڑک پر تیز رفتار سوار جلد منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔پگڈنڈیوں سے راہ پانے والے قدموں کے بل پر گھر سےکھیتوں تک ہی پہنچ پاتے ہیں۔
درخت اپنی نظر نہیں اتارتے پھر بھی پھل دیتے ہیں کیونکہ نگران کی نظر نہیں چوکتی۔پھل دار نئے پودے اپنے چاروں اطراف مخصوص فاصلے اور ترتیب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔
آج کا بیان  پیچیدگی سے بھرا ہے لیکن معنوی لحاظ سے ہدف آسان ہے۔کہنے سننے کا دور گزر جائے عمل پیرا ہونے کا وقت دامان ہے۔
جنہوں نے چلنا ہے وہ کمر کس لیں، سوچنے کا وقت نہیں،سنبھل کررہنے کا مقام ہے۔ڈاکٹر جب دل کا آپریشن  شروع کر دے تو مکمل کئے بنانہیں چھوڑتا۔
 
 تحریر! محمودالحق

در دستک >>

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter