خزاں کی تیز ہواؤں میں سوکھے پتے زمین پر تلملاتے اُڑتے
گرتے کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر گھسٹتے ٹوٹتے بے بسی کے عالم تنہا میں بظاہر موسم
کی تبدیلی کی نوید سمجھے جاتے ہیں لیکن درحقیقت بھرپور زندگی کی توانائیوں کے
اختتام پر اپنے اختتام کے سفر میں روندے و رگڑے جاتے ہیں۔آکسیجن دینے والے اور
کاربن ڈائی اکسائیڈ لینے والےانسانی بستیوں میں توانائی کھونے پرشاخ کی بے اعتنائی
سے بے پرواہ احسان جتانے سے
لاپرواہ مٹی
سے بغلگیر ہونے کی تمنا میں ریزہ ریزہ ہو کر اپنے وجود تحلیل کرنے کے عمل جراحی سے ایک دردناک انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔
زندگی کا سفر صعوبت سے خالی نہیں ہوتا۔ بچپن لڑکپن کی
طرف بڑھتا ہے تو ماضی ایسے کیڑے
کی مانند ساتھ جڑ جاتا ہے جو
کسی کونے کھدرے میں چھپ کر حال کی انرجی سے قوت حاصل کرتا ہے اور کیڑوں کی ایک
ایسی فوج تیار کرتا رہتا ہے جو نوجوانی سے ادھیڑ عمری تک پوری طرح فتح یاب ہو کر
شریانوں کے راستے برین کے کونوں کھدروں سے نکل کر سسٹم پر غلبہ پا لیتا ہے۔ جس سے
چھٹکارا پانا شعور کے بس کی بات نہیں رہتا۔ یہ ایک ایسی خفیہ ایجنسی کی طرح کام
کرتا ہے جس کا اس ملک کے باسیوں کو بھی علم نہیں ہوتا۔
بڑھاپے میں سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت اپنی کم ترین
سطح پر ہوتی ہے۔ بچپن افزائش نسل انسانی کے گھروندے میں خوف و سراسیمگی کے
زیراثرایسی سرنگیں کھودتا رہتا ہے جو بظاہر پہاڑ دکھنے والے برین کے اندر سالہا
سال کی محنت سے اپنے لئے طویل راستے بناتا رہتا ہے۔ جیسے ہی سوچ چوٹیوں سے
ڈھلوانوں میں اترتی ہے تو سرنگیں اس سے پہلے وہاں پہنچ چکی ہوتی ہیں۔
بچپن کم علمی کی شناخت رکھتا ہے لیکن خوف کے سائے
گھمبیر ہوتے ہیں جو خاموشی سے اپنے کام میں جتے رہتے ہیں۔ یہ کام کرنے سے رکتے
نہیں ہیں بلکہ وسوسے اور خوف کی دیواریں تعمیر کرتے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ انسان
سمجھتا ہے کہ میں نے سفر طے کر کےمنزل پالی لیکن سرنگیں اور خندقیں کھودنے والا یہ
کیڑا انتہائی مہارت اور چالاکی سے اپنی فوج میں نئی بھرتی کرتا رہتا ہے۔ یہ اپنی
آخری جنگ تب لڑتا ہے جب اسے یقین ہو جاتا ہے کہ اس کا مدمقابل لاغر و کمزور ہو چکا
ہے۔ یہ آخری جنگ وہ ہمیشہ جیت جاتا ہے۔ پہلی شکست اس پہاڑ کو دیتا ہے جس کے اندر
سرنگیں بناتا ہے۔ پھر ارد گرد مضبوط حصاروں کو توڑنے کے لئے اپنی پوری توانائیاں
خرچ کر کے قریب ترین سہارا بننے والے مضبوط پتھروں کے نیچے سے زمین کھینچ کر اپنے
سے دور کر دیتا ہے۔
ظلم ،زیادتی ،حسد ،رقابت ،نفرت اور خوف کے لامتناہی
سلسلوں کے نشیب و فراز میں خندقیں کھود کر وہاں بسیرا کر لیتا ہے۔ نوجوان والدین
کے معصوم بچے سخت رویوں اور دنیاوی کامیابیوں کے عشق میں مبتلا اپنے ہم عصروں کے
مقابلے کی اُڑان میں پَر باندھ کر چھوڑ دئیے جاتے ہیں۔
بچے دنیاوی کامیابیوں اور کامرانیوں کی بھٹی میں جھونک
دئیے جاتے ہیں۔ جہاں کیڑے اپنا ٹھکانہ بنا لیتے ہیں اور برین میں رفتہ رفتہ کیڑوں
کی ایک فوج بنا لیتے ہیں۔ بوڑھا ہوتا ہوا انسان اپنے پیچھے ایسا نوجوان چھوڑ جاتا
ہے جو حالات کی سختیوں کو کچلتا آگے بڑھتا منزل پانے کی جستجو میں کمر بستہ رہتا
ہے۔لیکن کوئی نہیں جانتا کہ انسان کیڑوں سے شکست کھا جاتا ہے۔ جنہیں وہ
جانتا تک نہیں لیکن تعلیم و تربیت کے نام پر خوف کے سائے میں پروان چڑھاتا رہتا
ہے۔ مائیں بچوں کے سروں سے جوئیں نکالنے پر اکتفا کر لیتی ہیں۔ یہ نہیں جان پاتی
کہ نظر نہ آنے والے کیڑے بظاہر کھجلی نہیں کرتے لیکن وجود میں ایسا ڈائنامائیٹ لگا
دیتے ہیں جو آتش فشاں کی طرح جب اٹھتا ہے تو وجود کو زیر کر لیتا ہے۔
بچوں کے بالوں پر بہت زیادہ توجہ دینے سے زیادہ بالوں
کے نیچے ان سرنگوں میں پائے جانے والے کیڑوں کے قلع قمع کرنے کے لئے سردھڑ کی بازی
لگانےکی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں خوراک رویوں اور حالات سے حاصل ہوتی ہے۔ اچھی
خوراک، اچھا لباس اور اچھی تعلیم و تدریس سے الگ بچوں کا محافظ بن کر کیڑوں کی
پیدائش کے عمل کو روکا جا سکتا ہے۔
بچے حکم کے پابند اور ہدایت کے تابع بنائے جاتے ہیں
جبکہ ان کے اندر سوچ کی ایسی سرنگیں بنانے کی ضرورت ہوتی ہے جو کیڑوں کو آگے
بڑھنے اور ان کی فوج میں اضافہ کے عمل کو روک سکے۔ آتشیں اسلحہ سے لیس ممالک
انسانی بستیوں کے لئے تباہی کے سبب سمجھے جاتے ہیں جبکہ اپنے گھروں میں بارود بھرے
رویے اتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ نسلوں کو تباہی کے دھانے پر کھڑا کر دیتے ہیں۔
اطمینان پانے کے لئے مطمئن ہونا ضروری ہے۔ مطمئن ہونا تبھی ممکن ہے جب
سکون میسر ہو۔ سکون ملنا تبھی ممکن ہے جب خیالات برانگیختہ نہ ہوں۔ خیالات
تبھی شانت رہتے ہیں جب ان میں ہیجان پیدا کرنے والے کیڑے نہ ہوں۔ کیڑے تبھی پیدا
ہوتے ہیں جب انہیں بچپن سے جوؤں کی طرح نکال باہر نہیں کیا جاتا۔
تحریر: محمودالحق