سپیدئ اَوراق کرن سیاہ میں چھپائی " میں یہ سطور لکھ رہا تھا ۔۔
"کبھی پہاڑوں سے دھول اُڑتی ہے ۔توکبھی سمندر کی لہریں ہوا کے زور پہ ساحل سے آگے بستیوں پر قہر بن جاتی ہیں ۔بادل گرج کر جب برس جائیں ۔تو پانی بہا لے جاتے ہیں ۔اگرسفید روئی کی طرح نرم حد سے گزر جائیں تو راستوں ہی میں جکڑ دیتے ہیں ۔تسکین تکلیف میں بدل جاتی ہے ۔زندگی جو بچ جائے وہ جدا ہونے والوں کی یاد بھی بھلا دیتی ہے۔ایک سے بڑھ کر ایک منظور نظر جب بپھر جائیں تو قیامت سے کم نہیں ہوتے ۔مگر ایسے حسین مناظر کی تصویر کشی کرنے والے خود سے کیوں بہک جاتے ہیں ۔جن کے دم سے رونق افروز ہیں انہیں پر آفت بن کر ٹوٹتے ہیں ۔بے ضرر دکھنے والے خدائی طاقت کا اظہار ایسے کرتے ہیں کہ جینا بھلا دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "
تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔ ہمارے ملک میں ایسا سب ہو گا ۔ پانی ایسے سب کچھ بہا کر لے جائے گا ۔
آج بارہ ملین عوام تاریخ کے بد ترین سیلاب کی تباہ کاری سے جس کسمپرسی کا شکار ہیں ۔ مستقبل کی پیش بندی تو کیا ۔ جانوں کے لالے پڑے ہیں انہیں ۔ کب اور کہاں سے اپنی زندگی کا آغاز کریں گے ۔ کوئی نہیں جانتا ۔گاؤں کے گاؤں دریا برد ہو چکے ۔ ساڑھے چھ لاکھ سے زیادہ گھر اپنے مکینوں کو بسانے سے معزوری کا اظہار کر رہے ہیں ۔
آنکھوں میں جو آج کل سیاسی موتیا اترنا شروع ہوا ۔ تو اب نظر صرف دھندلائی نہیں بلکہ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانا شروع ہو چکا ہے ۔ بینائی کی بحالی کے لئے قطرے گن گن کر آنکھوں میں ڈالے جاتے ہیں ۔پانی جتنا بھی وافر کیوں نہ ہو تولا کبھی نہیں جاتا ۔ آنسوؤں کی برسات کی جھڑی بھی لگ جائے تو خشک ہونے تک انہیں پونچھا جاتا ہے ۔ آنسو گنے نہیں جاتے ۔
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت میں انسان تولے نہیں گنے جاتے ہیں ۔ ایک طرف تین نیشنل اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں دو بڑی پارٹیوں نے ایک ایک نشست حاصل کی ۔اور ایک پہ نون کی حمایت سے آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ووٹوں کی گنتی کے باوجود پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما جو غصے میں بھری بیٹھی پریس کانفرنس کر رہی تھیں نے ہارنے والی نشست پر بد ترین دھاندلی کا الزام عائد کیا ۔اور وہاں دوبارہ انتخابات کا مطالبہ بھی کر دیا ۔ ایک نشست کا کھونا کسی آفت سے کیا کم نقصان ہے کیا ؟
دوسری طرف نواز شریف کولندن یاترا سے فوری واپسی کے لئے زرداری کو دیا گیا اپنا مشورہ اپنے پاس رکھنے کو کہا گیا ہے ۔اگر شریف برادران انسانوں کو گننے سے اقتدار میں آئے ہیں۔ تو زرداری صاحب بھی اسی گنتی کے نتیجے میں یہاں تک پہنچے ہیں ۔اب جب دونوں بڑی پارٹیاں انسانوں کو گننے سے اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں تو انہیں تولنے کے لئے انصاف کا ترازو ہاتھ میں نہیں لینا چاہئے ۔اگرچہ اقتدار میں آنے کے کے لئے انسانوں کو تولنے کی ضرورت باقی نہیں رہی ۔ مگر بولنے سے پہلے تولنا بہت ضروری ہے اور لکھنے سے پہلے اشد ضروری ۔
بقول ان کے قوم کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ؟ ان کے مستقبل کے لیڈرو حاکم کے تعارف کی نقاب کشائی ہو رہی ہے ۔لب کشائی کی اجازت نہیں ۔ اگر کسی نے قائدین کا وزن گھٹانے کی کوشش کی تو کشتوں کے پشتے لگائے جا سکتے ہیں ۔ ہمارے قائدین گنے اور آزمائے ہوئے ہیں ۔ کوئی تلے ہوئے نہیں ہیں ۔ پڑھنے میں غلطی نہ کی جائے تولنے سے تلنے کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ پکوڑے تلنے سے نہیں ۔
آپ کو ہر حالت میں پیش کا استعمال کرنا ہو گا ۔ سیلاب کی وجہ سے کھڑے پانی سے جو دست و پیچش کی وبائی امراض پھوٹیں گی ۔اس میں ان قائدین کا کوئی ہاتھ نہیں ہے ۔ پرچیوں کی گنتی سے عوام جو انہیں دیتے ہیں ۔وہ انہی ہاتھوں سے لوٹا بنا کر انہیں لوٹا دیتے ہیں ۔ لاکھوں عوام دست و پیچش کا شکار ہوں گے ۔تو لوٹوں کی تعداد کم پڑنے کا اندیشہ ہے ۔
نورجہاں تو اب اس دنیا میں نہیں رہی ۔ ایسے میں اگر نصیبو لعل مان جائے ۔ تو اس سے پانچ سات ترانے ہی گوالئے جائیں جو خون کو گرما دیں ۔ترانوں میں یہی تو ایک خوبی ہے ۔ کہ وہ خون گرماتے ہیں ۔ شرم نہیں دلاتے ۔ اسی لئے قائدین جوق در جوق اپنے انتخابی جلسوں میں بھرپور بجاتے ہیں ۔
سیلاب میں گھرے اور متاثرہ عوام کو قطعا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ چند روز تک ہوا میں چکر لگاتے جہاز ان پر پرچیاں نچھاور کریں گے ۔ پرچیاں لندن سے تو ضرور آئی ہوں گی مگر وہ خوراک کے کوپن نہیں بلکہ ہمارے موجودہ اور مستقبل کے حکمرانوں کے فوٹو سیشن کی پرچیاں ہوں گی۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ سابقہ صوبہ سرحد کے عوام کو جس طرح پختونخواہ کے نام سے ریلیف دیا گیا ہے ۔جنوبی پنجاب کے عوام کا یہ دیرینہ مطالبہ بھی اگلے سیلاب تک پورا ہو جائے گا ۔ عوام خوش حکمران خوش ۔
یہ سمجھ لینا کافی نہیں ہو گا کہ یہ آفت صرف پاکستان پر آئی ہے ۔پوری امت اسلام اس سے متاثر ہو گی ۔ بیڈ روم کی طرح پر آسائش ہوائی سفر کرنے والے عرب شہزادے جنہوں نے ان ریگستانوں کو شکار کے شوق میں جس طرح اندھا دھند استعمال کیا ۔ انہیں اس کا بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا ۔ محلات کی صورت میں جو وہاں کے غریب عوام کی مدد کی گئی ہے ۔ ضائع ہونے کا خطرہ ہے ۔
قوم تو ویسے ہی جلد بازی کا شکار رہتی ہے ۔اورمسائل کا حل جادو کی چھڑی جیسا چاہتی ہے ۔حالانکہ ایک لیڈر کو پیدا ہونے میں ایک مارشل لاء درکار ہوتا ہے ۔ قوم سکتے میں نہ جائے ۔ اپنی جیب ڈھیلی کرے ۔ زلزلہ کی تباہ کاریوں سے نپٹنے کے لئے ملنے والی امداد کب کی ہضم ہو چکی ۔ اب نیا دور ہے نئے اخراجات کا تخمینہ اکیلے لیڈر کی بجائے پورے خاندان اس قوم کے رحم و کرم پر ہیں ۔ دل کھول کر عطیات دیں اور ماضی کی طرح کہاں خرچ کیا ۔ کے سوال سے اجتناب برتیں ۔شائد یہی وجہ ہے کہ ایک ٹی وی کی سلائیڈ پر غیر سرکاری این جی اوز کو بھرپورعطیات دینے کی اپیل کی جارہی ہے ۔
پختونخواہ کے عوام پریشان نہ ہوں ۔ سرحد کے نام کے ان کے سروں پر منڈالتے برے اثرات ٹل چکے ہیں ۔
آج کل ایک آدھ ہفتہ میں نا انصافی کی دہائی میں از خود نوٹس کی گونج سنائی دے جاتی ہے ۔ جس معاشرے میں معصوم بچوں اور خواتین کے جسموں کے چھیتڑے ہواؤں میں بکھرنے لگیں ۔اور احتجاج کرتی عوام کے بازوؤں پر اور حکمرانوں کی آنکھوں پر سیاہ پٹیاں بندھی ہوں ۔اور اس معاشرے میں پیدا ہونے والے مسائل کا حل لاشوں کے گرنے کی سیاست پر رکھا جائے۔ تو پھر از خود نوٹس کے سوا کیا چارہ رہ جاتا ہے ۔
چند ماہ پہلے جب میں اپنے مضمون " Aug 6, 2010
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 تبصرے:
Post a Comment