Aug 15, 2010
سیلابی ریلے ۔بہہ گئے ۔زندگی کے میلے
پہاڑوں سے بہتے بہتے میدانوں تک پھیلتے پانی جب آنکھوں سے آنسو بن برس جائیں ۔ تو خوشیاں دیکھنا تو درکنار سوچنا بھی بیکار ہو جاتا ہے ۔ قافلے بے سروسامانی کے نشان، سر پہ گھٹڑیاں بندھی زندگی بھر کی پونجی کے ساتھ ،سوال کرتی آنکھیں خاموش زبان سے شاعری کے مجموعہ کلام پر بھاری پتھر سے کاری ضرب لگاتی ہیں ۔
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی امن کی فاختائیں ۔ رحم کی صدائیں ۔درگزر کی ادائیں ۔محبت کے گیت ۔ کھیت کھلیان باغ دلکشا۔نہ دیکھوں پھر کبھی اجڑے دیار ۔ بچھڑے یار ۔ مدد کے طلبگار۔ نہیں ہوش کون ہے کس کا دلدار ۔ بس امید کی ایک آس ہے ۔ چہرے تصویر یاس ہے ۔لٹے پٹے قافلے ہیں ۔ آٹا دال چاول کے مہنگے لوٹتے گھاؤ ہیں ۔پچیس ہزار میں پچاس میل کی مسافت کا بار ہے ۔
ہزار ہزار دیگوں میں بٹتی مرغ بریانی ہے ۔ پھر بھی بھوکے اکثر بےیارومددگار ہیں ۔بے چارے تعلیم میں بھی بہت پیچھے ہیں ۔ علم سے نابلد اجڑ و گنوار ہیں ۔کلاس روم کےنام سے بھی تھےجو نہ آشنا آج سکولوں میں حاضری رجسٹر پر پسماندہ حال ہیں ۔ خواندگی کی شرح شرمندگی کی سطح پر۔ پہلے ہی سکولوں میں پناہ لی ہوتی ۔ توان پڑھ گنوار نہ رہتے۔ ہر الیکشن میں انگوٹھا لگانے سے انگوٹھا چھاپ نہ کہلائے ہوتے ۔
گھروں سے بے گھر مہاجر ہیں توسکولوں میں رہتے پناہی ۔ صفحہ ہستی سے مٹنے والے اپنے گھروں کو جو نہ واپس لوٹ سکیں ۔اسی زمین پر رہیں گے بے گھر ہاری کسان بن کے مہاجر یا پناہی ۔
ہر طرف لاشیں ہیں ۔ نہیں رہتی اب نئی خواہشیں ۔زندگی امن سے جی لیں یہی اب ہیں فرمائشیں ۔کون جینے دے گا ۔ پانی اترنے کی دیر ہے ۔ زندگی صرف انہی کی اندھیر ہے ۔ جنہیں پہلے جینا بیزار تھا اب وہی زندگی کے طلبگار ہیں ۔
ایک معافی پہ پھر وہی بنائیں گے نئی سرکار ۔ جو آج نظر آتے ہیں لاچار ۔ مدد کے لئے آقاؤں کا ہے انہیں انتظار ۔آج سیاست پر بات نہیں کرنا تھی پھر بھی ایک آدھ فقرے کے لئے معذرت ۔ کیونکہ وہی مسیحا ہیں ۔ بااختیار ہیں زور آور ہیں ۔ ان کی مدد کے بغیر تسلی و تسفی نہیں ۔ شکوہ انہی سے سب کرتے ہیں ۔ قوم کو ایک کرنے کا تہیہ اب وہ آپس میں مل بیٹھ کر کرتے ہیں ۔ ووٹوں پر جو تقسیم کرتے تھے ۔
ہر لیڈر کی اپنی قوم ہے پنجابی پختون سندھی بلوچی۔ جو ان میں نہیں وہ متحد ہے ۔14 اگست ان سب کی آزادی کا دن ۔ جب سب اکٹھے جشن مناتے ہیں ۔ صرف عید کے چاند پر اتفاق نہیں کرتے ۔ تین دن تک اپنی ڈیڈھ اینٹ کی مسجد الگ بناتے ہیں ۔
جب الگ الگ ہو چکے تو اب یکجہتی کی ضرورت آن پڑی ۔ اب قطرہ قطرہ دریا بننے میں دیر کر رہا ہے ۔دوسروں پر انحصار کی بجائے خود کے بازو کو ہی طاقت بنایا ہوتا ۔ استعمال کے بعد نہ انہیں بھلایا ہوتا ۔ تو متاثرین کوخالی پلاٹوں سے بھی بے سروسامانی کے کیمپ اٹھائے جانے کو نہ کہا جاتا ۔5 ہزار روپے من تک آٹا نہ بکتا ۔
اگر انہیں سیاست کے میدانوں کے بڑے شکاری نہ لکھوں تو پھر کیا لکھوں ۔ جانتا ہوں کہ سیاسی حالات پر لکھنا بوریت پیدا کرنے کا سبب ہے ۔ اختلافی موضوعات کو جو پزیرائی حاصل ہے وہ کسی دوسرے موضوع کو نہیں ۔ خاص کر لسانی اور مذہبی ۔ یہ کسی مفروضہ کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا ۔بہت سی باتیں کچھ کھلی تو کچھ ڈھکی چھپی بیان کر چکا ۔ اب اگر بات یہیں ختم نہ کروں تو پھر اعتراضات کی ایک لمبی لسٹ ہے ۔ تجربات اتنے سنجیدہ ہیں کہ غیر سنجیدگی طاری نہیں ہوتی ۔
موضوعات
آزادی,
پاکستان,
زندگی,
سفینہء محمود,
سیاست,
سیلاب، تباہی,
معاشرہ,
نثری مضامین
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
2 تبصرے:
صاحب بات آپ کی سب ٹھیک.
دکھ بھی سمجھا سو فیصد ٹھیک.
گذارش اتنی اس بندہ ناچیز کی.
نہ بدلیے گا اپنا انداز تحریر کہ بندہ ہوا آپ کا مرید.
یاسر خوامخواہ جاپانی !!
اندازہ تحریر بدلنے سے بچ گیا گر پیری مریدی سے تو مضائقہ برا نہیں .
Post a Comment