ایمان کا تقاضا کیا ہے ؟ رضا کا مقام کیا ہے؟ ثواب کی جزا کیا ہے؟ گناہ کی سزا کیا ہے؟ صبر کی انتہا کیا ہے؟ مشکل کی انتہا کیا ہے؟ پریشانی کا حل کیا ہے؟ جستجو کا انجام کیا ہے؟ مدد کی طلب کیا ہے؟ اور حاصل کا وجود کیا ہے؟
ان میں سے کچھ لازم ہیں باقی ملزوم ہیں ۔لیکن شائبہ کی گنجائش نہیں۔شک کا احتمال نہیں۔شکوہ کی اجازت نہیں۔خواہشیں آرزؤئیں لاکھ انگڑائیاں لے لے بستر مرگ پہ سلوٹوں سے تابندگی کی نوید اُمنگ جگاتی رہیں۔مگر زندگی کی ناؤ تا دم ازل و آخر حیات و ممات کے سمندر میں موجزن ململی لہروں پر رقصاں رہتی ہے۔
نا اُمیدی اتھاہ گہرائیوں کے اندھیرے سناٹے میں چیخنے چلانے کے بے ہنگم ہنگامے پر شادمانی میں جھومتی رقصاں رہتی ہے۔ یہیں سے دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب ضروری ہو جاتا ہے۔ ڈوب جاؤ یا پار لگ جاؤ۔ اُڑتے رہو یا گر جاؤ۔توکل اختیار کرو یا تحمل برد باری چھوڑ دو۔ رضا کو پا لو یا خواہشیں چھوڑ دو۔روشنی کے لئے چراغ میں تیل ڈالتے رہو یا کرنیں بکھیرتی صبح کے انتظار میں چراغ شب بجھا دو۔ مایوسی کا خوفناک عفریت ایسا سراب چاہت بناتا ہے کہ چشم َ عقل اندھے کی لاٹھی کی مثل ٹھک ٹھک راستہ تلاش کرتی ہے۔ منزل جتنی دور ہو گی راستے اتنے آسان ہوں گے۔ منزل جتنی قریب ہو گی راستہ اتنا ہی مشکل۔
شاہی تخت یا تختہ کی ترکیب پر ہوتی ہے۔زندگی میں اور تو کی ترکیب پر۔ اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ایک ہاتھ دو ایک ہاتھ لو سراسر پورے تول کی غمازی کرتی ہے۔ جتنا دیا اس سے کم پر سمجھوتہ نہیں کرنا۔ زندگی پانی ہے تو موت دے دو۔ بھوک مٹانی ہے تو دوسرے سے چھین لو۔طاقتور بننا ہے تو مد مقابل کو کمزور بنا دو۔
ناخنوں کی تراش کے دوران ایک ہلکی لائن کے پیچھے زندگی اور اگے موت پاتا ہوں۔ بند آنکھیں دیکھنے سے قاصر ہوتی ہیں کان سوتے میں سننے سے ۔سانس اور دھڑکن کی حد خاموشی کے اس پار ہے۔ اس کے لئے ایک وقت کا انتظار ہے۔ ایک کمزور بال کھینچنے کی معمولی تکلیف پر پورا وجود یکسوئی سے اس مقام کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔زبان بہت گرم اور نہایت ٹھنڈے کے درمیان ہی عافیت سے رہتی ہے۔بدن جاڑے میں لحاف اور گرمی میں ہوا سے تسکین پاتا ہے۔خوشبو آنکھوں میں نشہ بھر دیتی ہے ۔ بد بو پورے وجود کو کچوکے لگاتا ہے۔
پھر یہ نفس ہی ایمان کا امتحان کیوں ہے۔دراصل دنیا امتحان گاہ ہے جس میں پرچہ ایمان کا ہے حل نفس کو کرنا ہے۔ سوالات کے آؤٹ آف سلیبس جوابات سے صفر ہی حاصل ہو گا۔ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہو گی اصل کیا جعلی کیا۔ مگر نقل محنت سے جیت نہیں سکتی۔پاس کا رتبہ اور ہے فیل کا مقام اور۔ نہ تو دنیا گیلری ہے اور نہ ہی دنیا دار آرٹ کے نمونے۔ جیسے کہ میٹروپولیٹن میوزیم نیو یارک میں رکھے یونانیوں کے عہد قدیم کے ننگ دھڑنگ دیو قامت مجسمے۔
جیتے جاگتے انسان جو ناخنوں سے مردہ حصے باقائدگی سے الگ کرتے ہیں۔ روح کی زندگی یعنی ایمان کی تراش سے کسی بھی تکلیف کے احساس سے محروم کیسے رہتے ہیں۔لالچ وغرض کے کفن میں لپیٹ کر زندہ درگور کر دیتے ہیں خواہشوں آرزؤں کی مالاؤں سے یاد کے دئیے روشن رکھتے ہیں۔یہ ایسا قبرستان ہے جہاں ایک کے بعد ایک زندہ حصے دفن کرنے چلا آتا ہے۔مردہ حصے چمکتے دمکتے گھروندوں میں سجانے میں مشغول ہے۔
ان میں سے کچھ لازم ہیں باقی ملزوم ہیں ۔لیکن شائبہ کی گنجائش نہیں۔شک کا احتمال نہیں۔شکوہ کی اجازت نہیں۔خواہشیں آرزؤئیں لاکھ انگڑائیاں لے لے بستر مرگ پہ سلوٹوں سے تابندگی کی نوید اُمنگ جگاتی رہیں۔مگر زندگی کی ناؤ تا دم ازل و آخر حیات و ممات کے سمندر میں موجزن ململی لہروں پر رقصاں رہتی ہے۔
نا اُمیدی اتھاہ گہرائیوں کے اندھیرے سناٹے میں چیخنے چلانے کے بے ہنگم ہنگامے پر شادمانی میں جھومتی رقصاں رہتی ہے۔ یہیں سے دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب ضروری ہو جاتا ہے۔ ڈوب جاؤ یا پار لگ جاؤ۔ اُڑتے رہو یا گر جاؤ۔توکل اختیار کرو یا تحمل برد باری چھوڑ دو۔ رضا کو پا لو یا خواہشیں چھوڑ دو۔روشنی کے لئے چراغ میں تیل ڈالتے رہو یا کرنیں بکھیرتی صبح کے انتظار میں چراغ شب بجھا دو۔ مایوسی کا خوفناک عفریت ایسا سراب چاہت بناتا ہے کہ چشم َ عقل اندھے کی لاٹھی کی مثل ٹھک ٹھک راستہ تلاش کرتی ہے۔ منزل جتنی دور ہو گی راستے اتنے آسان ہوں گے۔ منزل جتنی قریب ہو گی راستہ اتنا ہی مشکل۔
شاہی تخت یا تختہ کی ترکیب پر ہوتی ہے۔زندگی میں اور تو کی ترکیب پر۔ اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ایک ہاتھ دو ایک ہاتھ لو سراسر پورے تول کی غمازی کرتی ہے۔ جتنا دیا اس سے کم پر سمجھوتہ نہیں کرنا۔ زندگی پانی ہے تو موت دے دو۔ بھوک مٹانی ہے تو دوسرے سے چھین لو۔طاقتور بننا ہے تو مد مقابل کو کمزور بنا دو۔
ناخنوں کی تراش کے دوران ایک ہلکی لائن کے پیچھے زندگی اور اگے موت پاتا ہوں۔ بند آنکھیں دیکھنے سے قاصر ہوتی ہیں کان سوتے میں سننے سے ۔سانس اور دھڑکن کی حد خاموشی کے اس پار ہے۔ اس کے لئے ایک وقت کا انتظار ہے۔ ایک کمزور بال کھینچنے کی معمولی تکلیف پر پورا وجود یکسوئی سے اس مقام کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔زبان بہت گرم اور نہایت ٹھنڈے کے درمیان ہی عافیت سے رہتی ہے۔بدن جاڑے میں لحاف اور گرمی میں ہوا سے تسکین پاتا ہے۔خوشبو آنکھوں میں نشہ بھر دیتی ہے ۔ بد بو پورے وجود کو کچوکے لگاتا ہے۔
پھر یہ نفس ہی ایمان کا امتحان کیوں ہے۔دراصل دنیا امتحان گاہ ہے جس میں پرچہ ایمان کا ہے حل نفس کو کرنا ہے۔ سوالات کے آؤٹ آف سلیبس جوابات سے صفر ہی حاصل ہو گا۔ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہو گی اصل کیا جعلی کیا۔ مگر نقل محنت سے جیت نہیں سکتی۔پاس کا رتبہ اور ہے فیل کا مقام اور۔ نہ تو دنیا گیلری ہے اور نہ ہی دنیا دار آرٹ کے نمونے۔ جیسے کہ میٹروپولیٹن میوزیم نیو یارک میں رکھے یونانیوں کے عہد قدیم کے ننگ دھڑنگ دیو قامت مجسمے۔
جیتے جاگتے انسان جو ناخنوں سے مردہ حصے باقائدگی سے الگ کرتے ہیں۔ روح کی زندگی یعنی ایمان کی تراش سے کسی بھی تکلیف کے احساس سے محروم کیسے رہتے ہیں۔لالچ وغرض کے کفن میں لپیٹ کر زندہ درگور کر دیتے ہیں خواہشوں آرزؤں کی مالاؤں سے یاد کے دئیے روشن رکھتے ہیں۔یہ ایسا قبرستان ہے جہاں ایک کے بعد ایک زندہ حصے دفن کرنے چلا آتا ہے۔مردہ حصے چمکتے دمکتے گھروندوں میں سجانے میں مشغول ہے۔
تحریر ! محمودالحق
2 تبصرے:
بہت اُونچی تحریر ہے جس کیلئے عقل و فہم کی ضرورت ہے ۔ عقل تو عام لوگوں کی بناوٹی بڑھائیوں اور سنگار سے وقت نہیں نکال پا رہی اور فہم عام طور سے کجی کا شکار ہے کیونکہ مصنوعی چمک سے چکا چوند ہو چکی ہے ۔ لیکن پیدا کرنے والا قادرِ مطلق ہے اور بے نیاز بھی ۔ جب چاہے جسے چاہے جدھر کو چاہے موڑ دے ۔ اللہ مجھ پر اپنا کرم فرمائے اور میرے ہموطنوں پر بھی مہربانی کرے
پیدا کرنے والا قادرِ مطلق ہے اور بے نیاز بھی ۔ جب چاہے جسے چاہے جدھر کو چاہے موڑ دے ۔ اللہ مجھ پر اپنا کرم فرمائے اور میرے ہموطنوں پر بھی مہربانی کرے
آمین ثمہ آمین
Post a Comment