سفر چاہے کتنا ہی آرام دہ کیوں نہ ہو بدن تھکن سے چور بے آرامی کی سولی پر لٹک جاتا
ہے۔ساتھ چلنے والے ساتھ ہونے کا احساس جتاتے رہیں تو بدن احساس کے ایک لطیف جھونکے کی بدولت اذیت کے بیت ے پل سے چھٹکارا پانے کی اہلیت پا لیتا ہے۔جسم و جاں ساتھ ساتھ رہتی ہے ریل کی پٹڑی کی مثل آغاز سے انجام سفر تک ہمسفر،قریب رہتی ہے بغلگیر نہیں۔تبھی تو منزل مقصود پر پہنچ کر اپنی چاہ پا کر تھکن کی زمین پر سکون کے قالین بچھ جاتے ہیں۔ تھکن کے اُکھڑے فرش نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔
بلندی کی انتہاؤں سے منظر پھیل جاتے ہیں،ہدف سکڑ جاتے ہیں۔ساحل آڑھی ترچھی لکیریریں بن کررہ جاتی ہیں۔ موجوں کی مستی، لہروں کی اٹھکیلیاں، ساحلوں کی خاموش محبت اتنی اونچائی سے محسوس نہیں کی جا سکتیں۔ انہیں دیکھنے کے لئے انتہائی قریب سے احساس کے دیپ جلانے پڑتے ہیں۔
جوں جوں ہم کسی ہدف سے دور ہوتے ہیں چاہے فاصلے زمینی ہوں یا آسمانی،نظر پھیل جاتی ہےمنظر سکڑ جاتے ہیں۔
0 تبصرے:
Post a Comment