Jul 23, 2019

خود کے آلاؤ خود کی جھونپڑی


پھولوں کی طرف بڑھنے پر کانٹے آستینوں کی طرف لپکے،زرا سنبھل  کر پلٹے تو پھول مسکرا کر ہوا کے رخ جھوم اٹھے۔ہر بار جانے سے پہلے آنے کا قصد کر تے تو  ارادہ ہوا کی لہر پر آواز بن کر مخبری کر دیتا۔  ایک مہک جاتا ، ایک اُداس لوٹ جاتا۔  گلستان میں پھر کسی نے جھانک کر آنے کی خبر دی  ۔  خوشبو تو ہوا سے لپٹ کر احساس کو معطر کر دے گی مگر  جذب کرب کی سولی پر لٹکا رہے گا۔
جب شہروں کی پابندی راس نہ آئے  تو جنگل کی طرف بھاگتے ہیں۔   جہاں ہوا، پانی اور گھاس پر سینکڑوں ہزاروں لاکھوں  ٹکر سے محفوظ رہنے کے لیے سرخ سبز اشارے کے پابند نہیں ہوتے کیونکہ اُن کے ارادے پکے ہوتے ہیں اور مقصد واضح ۔   نام ان کے کہیں فخر و غرور اور کہیں گالم گلوچ میں  تشبیہ و استعارہ   ہو جاتے ہیں، پھر بھی شکوے ان کے آسمان سے نہیں ہوتے۔
جب اکیلا آنا لکھا ہو اور جانا تنہا،تو پلٹ کر اٹھکھیلیاں کیسی۔زندگی کا سفر سمندر کی لہر نہیں جو ساحل تک چھوڑ جائے ، نہ ہی شہر کی سڑک ہے جہاں جب چاہا پلٹ لیا۔یہ تو جنگل ہے گہرائیوں کا تنہائیوں کاکھائیوں کاپھولوں کا پھلوں کا اندھیرے کا خوف کا ، جہاں دوست بھی ہیں دشمن بھی۔ جینے کے ڈھنگ نرالے  موت کے سنگ  ۔
خود  کے آلاؤ   خود کی جھونپڑی، مسافر کی دوستی  سفر تک۔منزل تو  رہتی بچھڑنے کے آغاز کا نشان  بن کر۔ جو سفر پر نہیں وہ مسافر نہیں۔ جو پڑاؤ پر رک گئے وہ سفر پر نہیں۔ جو کھو چکے اُنہیں پانے کی اُمید کیسی۔جو رُک چکے اُنہیں  ساتھ چلانے کی  ضرورت کیسی۔  جب شام ڈھل جائے تو کھڑکیاں ہی صرف کھلتی ہیں۔ دروازے دستک سے آواز پیدا نہیں کرتے جس سے آنے والوں کی اطلاع پہنچ پائے۔
زندگی ایک گھورکھ دھندہ ہے لفظوں کی بناوٹ کا، پلکوں کی جنبش کا، زبان کی حلاوٹ کا، آنکھوں کے انتظار کا،سوچ کے غبار کا، بھوک و پیاس کے اوقات کا اور سانس سے گردش خون کی روانی کا۔
کسی کے لئے بند آنکھوں  کے بعد  دنیا ختم ہوتی ہے اور کسی کے لئے کھلی آنکھوں میں۔ جہاں چاہت کا دربار ہے وہاں محبت سرکار ہے۔ جو مالک و مختار ہے چاہت اس کی طلبگار ہے  ۔بندہ ہی لاچار ہے ۔
سامان کی طرح اس سفر میں اپنے اعمال کی خود حفاظت کرنا پڑتی ہے۔خاموشی اختیار کی جاتی ہے ۔
جب زبان رک جاتی ہے تب قلب جاری  ہو جاتا ہے۔

محمودالحق

0 تبصرے:

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter