Aug 4, 2019

قلم ٹوٹتے رہے سیاہی بدلتی رہی

لکھنے کے لئے کاغذقلم ہاتھ میں لئے دہائیاں گزر گئیں۔ قلم ٹوٹتے رہے سیاہی بدلتی رہی ، کاغذ ہاتھوں سے میلے ہوتے رہے۔ہم بڑے ہو گئے قلم کتابیں چھوٹ گئیں اور کاغذ پر چھپی ڈگریاں ہاتھ لگتی رہیں۔ہم خیال کی اونچائی سے حقیقت کی کھائی میں اترنے لگے۔ دوستوں نے تنہائی کے احساس پر ٹائم پاس کا مرہم رکھا۔جو چاہا وہ پاس نہ آیا ، جس سے  دور بھاگے وہ گلے پڑ گیا۔زندگی بعض اوقات انسان سے کھیلتی ہے۔ امتحان سے گزارتی ہے پھر نہ ہی وہ پاس ہوتا ہے اور نہ ہی فیل ، بس ورکشاپ میں ہتھوڑا  ،اوزار پکڑوانے والا چھوٹا یا ایک ہی جماعت میں جونئیر کو خوش آمدید اور اگلی جماعت میں ترقی کرنے والوں کو الوداع کہنے والا بن کر رہ جاتا ہے۔
ماضی انسان کا پیچھا کرتا ہے ،کبھی خوف بن کر، کبھی پچھتاوا کی صورت، کبھی ندامت تو کبھی سر کشی کا کوڑا بن کر جو بدکے ہوئے گھوڑے پر  چابک برسا کر غصہ کی حالت سے اسے تابعداری کی طرف مائل کرتا ہے۔
بچے اچھے برے کی بجائے قابل اور نالائق کی تقسیم سے جانے اور پہچانے جاتے تھے اور  جاتے ہیں اور جانے جاتے رہیں گے۔ ملازمت پیشہ تنخواہ  سے، کاروباری دولت سے ، طاقتور اختیا ر سے جانے جاتے ہیں اور مانے بھی۔پانچویں پاس امیر اور پڑھا لکھا کلرک لندن امریکہ میں بچوں کی  اعلی تعلیم کا خواب آنکھوں میں سجانے کی بجائے ذہن میں سما لیتا ہے۔نامکمل اور ادھورے خواب سے کچھ دیر کے لئے ماضی سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے ، مستقبل روشن ہو جاتا ہے اور حال مطمئن۔
اپنی قابلیت کے بل بوتے پر دنیا میں شہرت و دولت کا مقام پانے کے بعدانسانیت کی بھلائی میں  انہوں نےان لوگوں سے زیادہ عملی طور پر حصہ لیا جنہیں اپنے بزرگوں سے صرف دولت کے مینار تعمیر کرنے کی تربیت ملی۔انہوں نے اپنے زیر اثر افراد ، معاشرے اور قوم کو بیوقوف بنا کر ایک ایسی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جو دیگیں پکانے والے کسی پکوان خانے کی پک اپ وین میں ایک زندہ گدھا دیکھ کر زیر لب مسکرا کر اسے کھانے والوں کی قسمت پر ہنستے ہیں ۔  
کہیں دولت کا رونا ہے ، کہیں عزت کا، کہیں محبت کا، لیکن شرافت کا ذکر خیر سننے کو کان ترس گئے۔حرام کمائی سے محل کھڑے کرنے والے معتبر  و معزز کہلائے۔ ایک بریانی کی پلیٹ اور ایک ادھ بوٹی کے لئے کناتوں پراتوں پر ٹڈی دل کے حملہ جیسا نقشہ قوم کی غیرت و حمیت کی بجائے غربت کا مذاق بنایا جاتا ہے حالانکہ گھروں میں تین وقت کا بہترین کھانا سویٹ ڈش کے ساتھ نوش فرمانے والوں کی پلیٹ پر بڑا مینار کھانے والے کی نیت کی بجائے اس کی فنکاری پر داد وصول کرتا پایا جاتا ہے۔تعلیمی ادارے آخر کہاں جائیں ، جہاں گھر بار، تھڑے بازار سیاسی درسگاہیں نوکر شاہی کے طفیل پسند ، نا پسند اپنا اُلو سیدھا رکھنے سے غرض رکھتے ہوں۔جب معاشرہ لوٹ مار اور حرام کی دولت کو برا جاننا چھوڑ دے اورتھانہ کچہری میں وہی باعزت کہلائے جاتے ہوں۔تو معاشرہ کہاں جائے جہاں ہر فرد عزت کا بھوکا ہو۔
زخمیوں اور بیماروں کے لئے ایدھی اور چھیپا ایمبولینس کسی نعمت سے کم نہیں  ایسے معاشرہ میں جہاں جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے کے مصداق ہو۔ جو جتنا متنازعہ ہو گا وہ اتنا ہی مشہور اور قدآور ہو گا۔ ٹی وی ٹاک شوز ہوں وشل میڈیا ہو یا اخبارات، ان کی جیبیں بہت بھاری ہوں گی اور تجزیے پھیکے۔
حالات سمجھنے کے لئے کوئی گیدڑ سنگھی نہیں چاہیئے ہوتی ، تاریخ ہمیشہ اپنے اُپ کو دہراتی
23 جنوری 2010 کو میری تحریر " سیاست کے میدانوں کے بڑے شکاری" کسی پارٹی یا سیاستدان کی بجائے نظام کے متعلق ہمارےعمومی روئیے کی غماز تھی۔ 26 مئی 2013 کو لکھی میری تحریر" فلم کا ٹریلر 11 مئی کو چلے گا"  میں فلم کچھ عرصہ بعد چلنے کا عندیہ تھا جس کی آج سارے ملک میں دھوم ہے۔اس میں کچھ حقائق کی نشاندہی کی تھی کہ ہر سال لاکھوں پڑھے لکھے نوجوانوں کو لالی پاپ کے لالچ میں نہ ملک چلتے ہیں اور نہ ہی حکومت۔  بالآخر وہ تعداد میں اتنے ہو جائیں گے کہ کسی بھی ایماندار شخص کو اپنا لیڈر مان لیں گے۔
ہمارے سیاستدان احمقوں کی جنت سمجھتے رہے پاکستان کو۔عوام چاہے کتنی ہی بے حس ہو جائے  مگر نظام قدرت کا اپنا دستور ہے۔ پڑھے لکھے بے روزگارنوجوانوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ بوڑھے طوطے شائد جوانی کے نشہ میں ابھی بھی سرشار ہیں ( دوسری تیسری شادی  سے ہٹ کر) ۔ یہ 80 اور نوے کی دہائی نہیں ہے جب  ایک کمانے والا دس افراد کے کنبے کا کفیل تھا۔ ہر کمرے میں اے سی  کے لئے بجلی اور موٹر سائیکل، کار کے لئے پٹرول کی ضرورت ہر فرد کو ہے۔ جس کے لئے رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ بجلی کی چوری سے لوڈ شیڈنگ نے ملک کا جو حال کیا تھا۔ بجلی کی زیادہ قیمت اور چوری رکنے پر لوڈ شیڈنگ پر تقریبا قابو پا لیا گیا ہے۔  بحریہ ٹاؤن لاہور کے قریب ایک گاؤں کا حال میں جانتا ہوں جنہوں نے ہمیشہ ڈائریکٹ بجلی چلائی گھر وں میں کئی ای سی دن رات بدن کو گرم ہونے سے بچائے رکھتے تھے۔ پرچوں کے اندراج پر جب تھانوں کا منہ دیکھنا پڑا تو ای سی بند اور میٹر کے زریعے بجلی کی آمدورفت شروع ہو گئی وہاں۔
آج کے  کالم نگار ،مفکریں ٹاک شو کے تجزیے  قوم کو حکمران اور اپوزیشن کے سیاستدانوں کے مستقبل کی پیش گوئیوں پر کمر بستہ ہے۔ نیا لیڈر کون بننے جا رہا ہے ، پارٹی کی کمان کس کے ہاتھ میں ہو گی۔اس نظام سیاست کو ماننے والے اور سہارا دینے والوں کی تعداد دن بدن کم ہو رہی ہے۔ نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیئے آنے والے وقت میں قیادت کا فیصلہ پڑھی لکھی عوام کرے گی۔ آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے والے جاہل سپوٹر اور ووٹر ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔جو قیادت کی بجائے باپ کے بعد بیٹی اور ماں کے بعد بیٹے پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ جو انہیں دنیا میں ایک آزاد شہری کی بجائے اپنی رعایا بنا کر رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جو معاشرہ لچُا سب سے اُچا کی پالیسی پر گامزن ہو۔ وہاں فیصلے زمین پر نہیں ہوتے۔ لا الہ الااللہ کی بنیاد پر قائم ہونے والا ملک کسی خاندان کی غلامی کے لئے دنیاکے نقشے پر معرض وجود میں نہیں آیا۔ ووٹر جتنی وفاداری پارٹی رہنما سے رکھتا ہے اگر اُتنی  عزت واحترام ، قدرو منزلت اور قربانی و ایثار اپنے گھر ، عزیز رشتےدار اور ہمسائیوں محلہ داروں سے بھی رکھ لے تو معاشرہ بے حسی کی تصویر نہ بنا پھرے جہاں لا تعلقی اور خود غرضی کی اجارہ داری ہے۔ مفاد پرست چند ایک چوہدریوں نے اپنے محلہ گاؤں کے نوجوانوں میں مخالفت نفرت کا ایسا بیج اپنے مخالفوں کے بارے میں بویا ہے کہ نوجوان نسل اچھے برے کی تمیز بھول گئی ہے۔  چائے بوتل ایک پلیٹ بریانی پر اپنے مستقبل سے بیگانے ہو چکے ہیں۔
دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون نہیں چلتا بلکہ قانون کی حکمرانی میں تمام عوام اور ارباب اختیار قانون کے تابع ہوتے ہیں۔ لیکن جہاں فیصلے سنانے والے اور ان کی معاونت کرنے والے ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہوتے ہوں تو کیا ہر ادارے کو اپنی ساکھ کی بحالی کے لئے بار بار کوٹ پہن کر تحریک چلانی پڑے گی۔
کیا ہم اُس مقام تک آ پہنچے ہیں کہ " اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی"

تحریر : محمودالحق


  

1 تبصرے:

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter