Mar 14, 2024
جستجوئے مقام
Oct 23, 2023
اجنبی خیال
Aug 20, 2023
دانش کی روشنی، علم کا سمندر
حکمت و دانائی ایک ایسی روشنی ہے جس کا پھیلاؤ وسیع ہے اور رکاوٹ ہونے سے وہیں جمع نہیں ہوتی بلکہ منعکس ہو کر راستہ بدل لیتی ہے جبکہ علم سیکھنا پڑھنے لکھنے سننے سے جڑا ہے جو پانی کے بہاؤ کی مانند ایک محدود راستہ میں سفر پر گامزن رہتا ہے جہاں رکاوٹ ہو تو اپنی طاقت کو وہیں پر جمع کر کے زور میں اسی مقام کو تختہ مشق بناتا ہے۔
آج کا موضوع بہت خاص ہے کیونکہ یہ کتابوں سے حاصل مواد پر مبنی نہیں بلکہ حقیقت شناسی کے علم لا محدود سے اخذ خزینہ نور ایمان میں یقین پختہ پر انحصار کا نتیجہ ہے۔ سیاہی میں ڈھل کر کاغذ پر ڈھلنے والے الفاظ پانی کی فطرت میں بہتے ہیں جو لہروں کی مانند زورو شور سے ریت کے زروں پر ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ پانی اپنی منزل کی سمت کاتعین رکھتے ہیں اور اپنی حدود بھی پہچانتے ہیں۔ اونچائی سے کنارہ کرتے ڈھلوانوں میں راستہ بناتے ، تباہی مچاتے آگے بڑھتے ،بخارات کی صورت زمین میں جزب ہوتے ہوئے کہیں ختم ہو جاتے ہیں۔
روشنی اپنی راہ میں آنے والوں پر زور زبردستی نہیں کرتی بلکہ منعکس ہو کر اپنا راستہ بدل لیتی ہے اور اپنے سفر کو آگے بڑھانے کے عمل کی راہ میں رکاوٹ نہیں آنے دیتی۔بند کواڑ کے پیچھے دروازوں کھڑکیوں کے معمولی سوراخوں سے اندر جھانک لیتی ہے لیکن طاقت کے استعمال سے اجتناب برتتی ہے دروازہ کھلنے پر اودھم نہیں مچاتی بلکہ اتنی ہی روشنی پھیلاتی ہے جتنی اردگرد کھلی جگہوں کو دیتی ہے۔
علم سمندر ہے جو لفظوں کی سیاہی میں لکھا جاتا ہے پڑھنے والے کے اندر بھی پانی کی مانند سیاہی بن اترتا ہے۔کبھی ہیجان پیدا کرتا ہے کبھی اضطراب کبھی سراسیمگی تو کبھی اکتاہٹ۔ لہروں کی مانند پانی کی فطرت سے استفادہ کرتا ہے۔ الفاظ کا زخیرہ بڑھ جائے تو تکبر کا مادہ پیدا کرتا ہے۔ بند کواڑوں پر زور زور سے دستک دے کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ دروازہ کھلنے پر باہر جمع طوفان کو اندر دھکیل دیتا ہے چاہے اندر والوں کا سانس ہی کیوں نہ رک جائے۔ الفاظ کا چناؤ ابتدائیہ میں بلند لہروں کی مانند دھکیلتا ریت کے زروں تک اختتام پزیر ہو جاتا ہے۔
حکمت و دانائی حسنِ فطرت ہے جو روشنی کی محتاج ہے۔ ایسی روشنی جو اپنی طاقت کو یکجا نہیں کرتی ۔ آگے بڑھتے راستہ کٹنے پر پانی کی طرح زور زبردستی نہیں کرتی بلکہ خاموشی سے ادھر ادھر سمٹ جاتی ہے جتنا کھلا راستہ ملتا جاتا ہے اتنا ہی آگے بڑھ جاتی ہے۔ اپنی حدود کو پھیلاتی آگے بڑھنے کے عمل میں ہر رکاوٹ سے نبردآزما نہیں ہوتی بلکہ برابر بانٹنے کے عمل سے راستے ہموار کرتی ہے اور روشنی پھیلاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف اس قدر طاقتور ہے کہ ایک محدب عدسے میں سے اسی روشنی کو گزارا جائے تو آگ لگا کر جلا دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔
دنیاوی علوم پانی سے بنی سیاہی کی تاثیر سے بھرپور علمیت کی معراج رکھتے ہیں۔ جہاں جس نے جتنا چاہا اتنا اپنے کلر میں رنگ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ کتابیں اپنے اندر طرز تحریر کے بہاؤ میں جگہ جگہ رکاوٹیں عبور کرتی نظر آتی ہیں۔ کتابوں کا حجم اتنا ہوتا ہے کہ بوجھ بن جاتا ہے۔ چونکہ لکھنے والے بھی لفظوں کا زخیرہ حروف تہجی کی پہچان کے ساتھ اپنے وجود میں سموئے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لئے تحاریر اپنے مالک کی ملکیت کا پردہ چاک کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
جبکہ حکمت و دانائی کا علم سیاہی سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ روشنی کی مانند اترتی ہے نور کی مانند پھیلتی ہے۔ یہ علم نہیں جو وسیلہ کا محتاج ہو ، یہ قلم نہیں جو سیاہی کا محتاج ہو، یہ کاغذ نہیں جو حروف تہجی سے آراستہ ہو۔یہ ایسی روشنی ہے جو چاند پر پڑتی ہے تو اسے چاندنی بنا دیتی ہے۔زمین پر پڑتی ہے تو اسے سرسبز بنا دیتی ہے اور خوشبو سے مہکا دیتی ہے۔ یہ پانی کی طرح راستہ بناتی نہیں روشنی کی مانند راستہ دکھاتی ہے۔ جہاں ہونے کا احساس نہیں ہوتا ، نہ ہونے کا احساس جاگزیں ہوتا ہے۔ جہاں علم سے بہرہ مند ہونے کی بجائے بےعلم ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ بہت کچھ جاننے کے علم تکبر کی بجائے کچھ نہ جاننے کا احساس بڑھ جاتا ہے۔
انسان سینکڑوں ہزاروں کتابیں پڑھ کر اپنی ذات کو پہچاننے کے عمل سے علمی استعداد بڑھاتا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے، وہ کھونے کے سفر پر گامزن ہو جاتا ہے۔ جاننا یہ نہیں کہ میرے اندر کیا ہے، کتنا علم ہے، کتنی طاقت ہے، کتنا حسن ہے بلکہ یہ ماننا ہے کہ یادداشت کے بھروسے پر لفظوں کی پہچان نے کتنا سفر طے کروایا جو لحد پر پہنچا تو ختم ہو گیا۔
جب تک علمی برتری کا بھوت سر پر سوار رہتا ہے، حکمت و دانائی کی رنگین خوبصورت تتلیاں قریب نہیں آتیں۔ مَیں کی پوشاک پہنی رہے تو روشنی کی کرنیں انتظار میں ٹھہر جاتی ہیں۔ ذات کے اندر مَیں کی تلاش میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔ جو علم کی سیاہی سے الفاظ کے ترازو میں تولی جاتی ہے۔
کتابوں میں فاصلے ماپ کر لکھے جاتے ہیں درحقیقت انہیں پہلے پاؤں سے تراشا گیا ہوتا ہے پھر نقطوں کو ملا کر ایک نقشہ ترتیب پاتا ہے۔جنہیں یہاں تک پہنچ کر ہونے یا نہ ہونے کے فرق کو تلاش کرنے میں کچھ دقت ہے تو انہیں ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں اور ایک مثال سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ انسانی دماغ بھی کمپیوٹر اور مختلف اپلیکیشن کی طرح ہی ایک مشین کی مانند کام کرتا ہے۔ جتنا اسے دیا گیا وہ سب فولڈر بن کر اپنی اپنی جگہ پر محفوظ ہے۔
گلاب کے سرخ پھول کا تصور کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آنکھیں بند کر لیں
اپنے پسندیدہ کھلاڑی کا تصور کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھیں بند کر لیں
اپنے پسندیدہ فلمی ہیرو کا تصور کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آنکھیں بند کر لیں
کسی اداکار کو ذہن میں لائیں جو ولن کا کردار نبھاتا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھیں بند کر لیں
کسی ایک سیاستدان کا خاکہ ذہن میں لائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھیں بند کر لیں
یہ رہا انسانی دماغ کا حساب و شمار Algorithm
جب پھول کو سوچا تو کئی طرح کے پھول ذہن میں ابھر کر آئے ہوں گے۔
کھلاڑی کا تصور کرتے ہی دماغ نے بے شمار کھلاڑیوں کا خاکہ سا بنا دیا ہو گا۔
اسی طرح ہیرو کے ساتھ کئی دوسرے ہیروز اور ولن کے تصور کے ساتھ کئی اور ولن بھی دماغ نے روشن کر دئیے اور آخر میں سیاستدانوں کا ڈھیر دماغ میں گھوم گیا ہو گا۔دماغ نے کہیں بھی دو متضاد کو اکٹھا نہیں کیا ہو گا۔ ہیرو کے ساتھ ولن اور پھول کے ساتھ کانٹے نہیں دکھائے ہوں گے۔انسانی برین نے کچھ نیا نہیں دکھایا جو اس میں محفوظ ہے اس نے اسی فولڈر کو کھول دیا۔
جو برین میں نہیں ہوتا اس پر وہ خاموش ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں لائیبریریاں کتابوں سے بھری پڑی ہیں۔ جن کے لکھنے میں قلم کاغذ کا استعمال کثیرہ ہوا ہے۔
اور ایک کتاب ہم سب کے گھروں میں ہے جو قلب پہ اتری ہے جو علمیت پر انحصار نہیں کرتی بلکہ روح پر نور کی صورت روشنی بن اتری اور جن پر نازل ہوئی وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ وہ مقدس کتاب قرآن مجید ہے جو پاک پروردگار کے خاص محبوب نبی محمد مصطفے ﷺ (جن پر ہماری جان و مال قربان )پر وحی کی صورت نازل ہوئی۔ قرآن ہمارے لئے راہ ہدایت ہے ،مشعل راہ ہے،تکریم سبز گنبد کے محبت کے متوالوں کے لئے ایک انعام ہے۔
تحریر! محمودالحق
Mar 14, 2023
سفر در سفر کہانی
امرود کے باغات زیادہ توجہ مانگتے ہیں۔عدم توجہ سے کیڑے اپنا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔قلب احساس کی جگہ ہے،آنکھیں تلاش گمشدہ کےپیچھے لگی رہتی ہے۔باڑیں لگا دینے سے فصل محفوظ ہو جاتی ہےلیکن پھل پانے کے لئے جڑوں میں پانی دینا ہوتا ہے۔پودوں کے قریب رہ کرپھول سے پھل بننے تک کے عمل کی نگرانی کی جاتی ہے، تب کہیں جا کرذائقہ و رنگ حاصل ہوتا ہے۔
جب دستک دے دی جاتی ہے تو قفل لگے دروازے کھل جاتے ہیں۔اندر داخل نہ بھی ہوں ملاقات سے شرف یاب ہو جاتے ہیں۔مشکل باتیں سمجھناآسان نہیں ہو سکتا۔زندگی مٹی کی مانند تو نہیں جسے گوندھ کربھٹی میں اینٹ بنا لیا جائے، یہ پہاڑ کا پتھر ہے جسے تراشا جاتا ہےپھر کہیں مورت بنتی ہے۔قدم جب آگے بڑھتے ہیں تو نئی زمین پر پاؤںرکھتے ہیں،پیچھے رہ جانے والی زمین آگے نہیں بڑھتی۔
کھونٹے پہ بندھے جانور چارہ شوق سے کھاتے ہیں لیکن انسان قید میں بہترین کھانے کے شوق سے محروم رہتا ہے۔
درخت کا سایہ کتنا ہی گھنا کیوں نہ ہو بانسوں پر چھپر ڈال کر ہی بارش سےبچا جا سکتا ہے۔پکی سڑک پر تیز رفتار سوار جلد منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔پگڈنڈیوں سے راہ پانے والے قدموں کے بل پر گھر سےکھیتوں تک ہی پہنچ پاتے ہیں۔
درخت اپنی نظر نہیں اتارتے پھر بھی پھل دیتے ہیں کیونکہ نگران کی نظر نہیں چوکتی۔پھل دار نئے پودے اپنے چاروں اطراف مخصوص فاصلے اور ترتیب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔
آج کا بیان پیچیدگی سے بھرا ہے لیکن معنوی لحاظ سے ہدف آسان ہے۔کہنے سننے کا دور گزر جائے عمل پیرا ہونے کا وقت دامان ہے۔
جنہوں نے چلنا ہے وہ کمر کس لیں، سوچنے کا وقت نہیں،سنبھل کررہنے کا مقام ہے۔ڈاکٹر جب دل کا آپریشن شروع کر دے تو مکمل کئے بنانہیں چھوڑتا۔
Oct 31, 2021
ادھوری عشق کہانی
جنہیں زندگی سے عشق ہوتا ہے وہ آسائش و آرام کی گنتی کرتے ہیں ۔ آزمائشوں کے ذکر صبر و تحمل سے بیگانہ ہوتے ہیں۔ چھوٹی گاڑیوں میں اپناسر چھت سے لگےتو پچھلی سواری کے گھٹنے کے لئے جگہ تنگ ہو جاتی ہے۔ کیونکہ آگے پھیلتے ہیں اور پیچھے سکڑتے ہیں۔ زندگی اپنے چاہنے والوں کو مایوس نہیں کرتی، گنجائش پیدا کر دیتی ہے۔ انسان جب پھیلتا ہے تو دوسروں کو سکڑنے اور پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ چاہ کر بھی سیکھنے والے نہیں ملتے، صرف وہ ملتے ہیں جو صرف پانے کی چاہت رکھتے ہیں اور وہ بھی اتنا کہ چند لمحات میں وہ اپنا اثر زائل کر دے ۔ زندگی جتنی مختصر ہے خواہشات کی زندگی بھی اتنی ہی محدود۔
گردش خون کی نالیاں جلد پر ابھر جاتی ہیں ،سخت زمین پر سونے سے بھی دل تک خون پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتیں کیونکہ قلب صرف اپنا خیال نہیں رکھتا بلکہ پورے وجود کو فعال رکھنے کے لئے متحرک رہتا ہے۔ جس کا کہا مانا جاتا ہے وہ دو تہائی مشقت سے چور ہو جاتا ہے اور ایک تہائی وقت زندگی بھر استعمال کرتا ہے۔ پھر بھی تکبر کا مادہ پیدا کرنے سے باز نہیں رہتا۔ انسان اس کے زیر اثر اپنے زندگی بھر کے تجربات کی روشنی میں اندھیروں کی گہرائیوں میں جا اترتا ہے۔
فن پارہ ہو یا بت عاشق نامراد اپنے تخیل سے کینوس پر رنگ بکھیر دیتا ہے لیکن اس میں احساس کی خوشبو سے محروم رکھتا ہے۔ خالق اپنی مخلوق کو تخلیق کے حسن سے احساس کی دعوت دیتا ہے۔لیکن انسان چولہے پر جلے اور مشین پر ڈھلے لباس سے اپنی بقائے حیات کی جنگ لڑتا ہے۔ وہیں رہ کر دستارِ وفا کی منزلت و کبریائی چاہتا ہے۔
بوڑھے کی لاٹھی مضبوط ہو تو بڑھاپے سنبھل جاتے ہیں۔ کمر پر بوجھ بڑھ بھی جائے تو کمزور رگوں سے قلب خون کھینچ لیتا ہے ۔ بڑھاپے سپردِ لحد ہونے پر لاٹھی ٹوٹ نہیں جاتی بلکہ زمین پر ڈال دینے سے ہر مشکل اور کڑی آزمائش میں رکنے، ٹوٹنے، جھکنے اور گرنے سے بچائے رکھتی ہے۔ اپنے اپنے سفر کی کہانی ہے ، اپنی اپنی منزل کی راہ ہے، اپنے اپنے عمل کی جزاہے، جسے جو جاننا ہے وہ خود کو کریدے ، جسے جو پانا ہے وہ خود سے چاہے۔ جب سفر ایک نہیں تو نتیجہ ایک کیسے ہو گا۔ اپنی اپنی راہ ہے اپنا اپنا سفر۔ سوچ کے دھارے میں نفع و نقصان تولے جاتے ہیں۔ قلب کے استعارے خالق و مخلوق کے درمیان جزا و رضا سے جڑے ہیں۔ راہوں سے راہیں جدا ہیں، سوچ سے سوچ بیگانہ ہے، خواہش کے انتخاب سے آزمائش کی برداشت حاصل اور لا حاصل کی جنگ ِافکار ہے۔
پانے کے لئے بھاگ دوڑ ہے جینے کے لئے عیش و آرام ہے۔ کمپیوٹر کی یاد داشت کروڑوں اربوں انسانوں سے بڑھ کر ہے لیکن ایک مچھر کے پر کے برابر اس میں احساس نہیں ہے۔ ایک سبق ہے زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کا جب دوسرے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کامیابی و کامرانی کے لئے ایک نسل دوسری نسل سے بہتر پلاننگ کر کے آگے بڑھ جاتی ہے۔ کامیابی و ترقی کا یہ سفر زمین کے لپیٹ دئیے جانے تک جاری رہے گا۔ اور انسان کفن میں لپٹے خالی ہاتھوں کو سپردِ لحد کرتے رہیں گے کیونکہ زندگی کی اصل حقیقت یہی ہے۔
تخلیق اپنے راستے خود اختیار کرتی ہے مخلوق سے اجازت کی طالب نہیں ہوتی۔ خشکی، تری اور ہوا میں رہنے والے اپنی جنس کا توازن برقرار رکھتے ہیں۔ رہتے ہیں ملتے ہیں پالتے ہیں پھر رخت سفر باندھ کر آنے والوں کو یہی موقع فراہم کرتے ہیں۔ انسان اپنے ہاں اولاد پیدا کرنے ، لڑکا یا لڑکی کی صورت بنانے کی اہلیت و اختیار سے محروم ہے۔ پھر دعوی ترقی و عروج کا کیا رہ جاتا ہے۔ پیچھے بچ جانے والے کس نئے نظام کی اصلاح و فلاح کے لئے کمربستہ رہتے ہیں؟
نیا نظام کچھ نہیں ، صرف ایک نظام ہے خالق کا تخلیق کردہ ، جس کی حقانیت قرآن سے ثابت ہے، جو سچ ہے، حقیقتِ عالم ہےجو وجود کائنات کے دائرہ اختیار پر مکمل کنٹرول رکھتا ہے۔ یقین کے ساتھ جینے میں صبر و تحمل اور سیر و شکر کی جو رضا ہے وہ مٹی سے پیدا ہوئی ہر شے کو خون میں ڈھالنے جیسی ہے۔ کیونکہ زمین میں خون نہیں بنتا اور بدن میں خوشبو نہیں پیدا ہوتی۔ جس ہستی کے بدن کے بہتے پسینے میں خوشبو و مہک کا جلوہ تھا وہ خالقِ کائنات ربِ زوالجلال مالکِ دو جہان نے اپنے محبوب رسول مقبول محمد مصطفی ؑ رحمتہ للعالین کی صورت میں اس زمین پر پھیلایا۔ جن کی بدولت آج ہم اللہ سبحان و تعالی کے فرمان کی حکم عدولی اور نافرمانی کے باوجود اس امید کے ساتھ زندہ رہتے ہیں کہ ہم امت محمد صلی اللہ علیہ والیہ وسلم ہیں جو ہماری بخشش کے لیے ایک زریعہ ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے
ترجمہ:
"آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان سلطنت اللہ کی ہے"۔ سورۃ المائدہ ۔آیت 18
"اور اس سے بہتر کس کا قول جو بلائے اللہ کی طرف اور اچھے عمل کرے اور وہ کہے بیشک میں مسلمانوں میں سے ہوں"۔ سورۃ فصلت ۔آیت 33
تحریر: محمودالحق