Dec 21, 2010
ایک بے وفا کے نام
جنہیں یاد تھا اپنا درد، قصہ سنا کر اپنی راہ پر چل دئے ۔ دھول میں اُڑتے جیسے بادل۔یادیں آنکھوں سے بہہ بہہ کر گر پڑے ۔کفن پہنی رہ گئی حسرتیں ۔ آرزوؤں نے غسل دیا ۔خواہشوں نے پھولوں کی چادر چڑھائی ۔
جنازہ صرف پڑھایا گیا ۔ دفنایا خود سے گیا ۔
لوٹ پھر سے گئی حسرتیں ، آرزؤئیں ،خواہشیں ۔
پھر کندھوں پہ سجائے کسی اور کو دفنانے ۔
صدیوں سے لحد میں اتار اتار کر پھر لوٹ جاتیں کسی بے وفا کی طرح ۔نئے محبوب کی تلاش میں جو ہاتھ بڑھائے خود مرنے کی آرزو میں مچل مچل جاتے ۔
ایک کے بعد ایک اپنا کھو تے چلے گئے مگر بے وفائی سے دامن اپنا نہ بچا سکے ۔ بچایا بھی تو صرف دو گز زمین ۔ اپنے ہاتھوں سے جس کی آرائش نہیں ۔ فرمائش کی تو گنجائش نہیں ۔ کھلے آسمان سے جو ڈرتے بند زمین میں رکھتے پناہگاہیں ۔
فیصلہ ہوتا جو ایمانی ۔ رکھتا نہیں وہ پریشانی ۔
شمع بزم میں ہے جلتی ۔ بزم شمع سے نہیں چلتی ۔
حجاب میں رہتا محبوب ۔ بے پردہ ہوتی محبت ۔
حال دل تو ہے پاک ۔آنکھ میں نفس مقید حیات ۔
چھونا جان سے چھوٹ جانے میں ۔ لفظ محبت پانے میں ۔مایوسی چھوٹ جانے میں ۔
لفظوں کی دستک دھڑکنوں تک جا پہنچیں ۔ قربتوں میں جو دوریاں کم پڑیں ۔ فاصلے سمٹتے سایہ بن کر وجود میں سما گئے ۔
کس سے کہوں حال دل ، جزبات میں جو بہہ نکلے ۔وہ خواہشیں ، وہ آرزؤئیں ، وہ چاہتیں ، وصل کی بندشیں ، ٹوٹ جانے کی صدائیں ،
تیریاں مجبوریاں، تیرے رشتے ،تیری بندشیں ،تیرا سر خم تسلیم شہنائیوں کے بجنے پر جھکتا گیا ۔
میرے ٹوٹے دل کے تار بجتےبجتے ٹوٹتے رہے ۔
تیری سچائیاں ، تیری قسمیں ، تیرے وعدے تیری طرح بے وفا نکلے ۔
میرا بھولپن، میرا بچپن، میری سادگی، میری سچائیاں ، میری پہلی محبت کی داستانیں ،میری وفا نکلے ۔
ٹوٹا ایک رشتہ، تو نے دلاسے سے جوڑنا چاہا ، ٹوٹا جس کا میں وجود تھا ۔تو نے محبت سے جوڑنا چاہا ۔
ٹوٹا جس کا میں فخر تھا ۔تو نے وفاؤں کے گھیرے میں سلا دیا ۔
یہ کیسی عجب شام ہے ۔نیلگوں آسمان بھی آج کالی چادر اوڑھنے کے لئے بیتاب نہیں ۔
ستارے اوٹ سے چھپ چھپ کر چمکتے بجھتے مجھ پر ہنستے یا منہ چھپاتے ،سامنے نہیں آتے ۔
دلوں پہ دستک دینے والوں کندھوں پر جانے کا وقت تم پر بھی آئے گا ۔آرزؤئیں ، خواہشیں تمہیں بھی بے وفائی کے کفن میں دفنائیں گی ۔
کھلونوں سے کھیلتی ، محبتوں میں پلی ، رشتوں میں جڑی جوانی خود پرائی آگ میں جو کود پڑی ۔
محبت جلتی پر تیل کا کام کر گئی ۔پہلے تپش سے گرمائی، اب آگ سے جل گئی ۔
جو تریاق تھے وہ زہر بن ڈستے رہے ۔جو کنارے تھے وہ بے رحم لہریں بن ڈبوتی رہیں ۔
جن کے آنے سے زندگی کی امید ہوئی وہ لوٹے تو موت کا سکوت چھوڑ گئے ۔ بے وفائی کے ظالم ہاتھ نے سچائی کا گلا گھونٹ دیا ۔ سانس لینے سے جو دل کی دھڑکن تھے ۔ سانس لینے کے دشمن ہو گئے ۔
پلٹ کر مت دیکھ میں تاریک جنگل کا مسافر نہیں ۔راستے میرے ہمسفر ہیں ۔ درخت میرے ہمراز ہیں ۔کلیاں میرے مسکرانے کے انتظار میں ، ہوائیں آہ کی چاہتوں کی بے قراری میں ۔
یہ ایک کہانی ہے جو میری زبانی ہے ۔
آنکھوں میں جن کے پیاس ہے ۔ قلب ایسے پر رکھتا قلب آس ہے ۔
نوٹ !
آن لائن کسی کی محبت کے انجام کو پڑھ کر اپنے الفاظ میں بیان کرنے کی ایک ادنی سی کوشش ہے ۔ امید ہے آپ کو پسند آئے گی ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
4 تبصرے:
جناب محمود صاحب بہت ساری بلاگ پوسٹ بڑھیں لیکن یہ اپنی نوعیت کی ایک لاجواب تحریر ہے
اکثر پڑھتا ہوں
بہت شکریہ آپ نے پسند کیا ۔ میں بھی اسے اکثر پڑھتا ہوں ہر بار ایک نیا لطف محسوس کرتا ہوں۔
جناب میں آپ کا پرانا فین ہون پاک نیٹ سے
اور آج پھر اسی تحریر کو پڑھنے ایا ہوں
بہت خوشی ہوئی آپ یہاں تشریف لائے۔ پاک نیٹ سے میرا پرانا رشتہ ہے۔
Post a Comment