Apr 29, 2013

السلام علیکم

میڈیکل سٹور کا دروازہ کھولتے ہی کام کرنے والے تمام افراد پر ایک سرسری نظر ڈال کر میں نے بلند آواز سے السلام علیکم کہا اور سیدھا کاؤنٹر پر جا پہنچا۔ جہاں ایک با ریش نوجوان کمپیوٹر پر نگاہیں جمائے کھڑا تھا۔کچھ دیر اس کا چہرہ تکتارہا۔اس نے سر اُٹھا کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی اور نہ ہی سلام کا جواب دیا۔میں نے پلٹ کر دوسرے ملازمین سے توجہ طلب نگاہوں سے مدد چاہی تو ایک نے احسان عظیم کیا اور اپنے پاس آنے کی دعوت دی۔میں آگے بڑھا اور اس غم گسار کے سامنے مایوسی کے گہرے سائے کو روندتے ہوئے اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ جو انتہائی لاپرواہی سے میرے  منہ سے کسی کڑوی دوائی کا نام سننے کے انتظار میں تھا۔لیکن آج میں ان کا جنرل نالج آزمانے گیا تھا۔تاکہ وہ میرے گھر کے قریب ترین ایسی جگہ  کا پتہ بتا دیں جہاں سے میں اپنی دس سالہ بیٹی کے دائیں ٹانگ پر چڑھائے گئے پلسترکی وجہ سے چلنے پھرنے کے لئے بیساکھی کا انتظام کر پاؤں۔
میرے لئے بیساکھی کا ٹھکانہ معلوم کرنے سے زیادہ یہ جاننا بہت ضروری ہو چکا تھاکہ میڈیکل سٹور میں موجود پانچ ملازمین میں سے کسی نے بھی میرے سلام کا جواب  کیوں نہیں دیا ۔ میں نے انتہائی لا پرواہی اور کسی قدر غصہ میں ان سب سے یہ سوال کیا کہ  جس ملک میں ہم رہتے ہیں کیا اسے  ابھی تک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی کہا جاتا ہے اور یہاں بسنے والے مسلمان کہلاتے ہیں تو انہوں نے بیک زبان کہا کہ جی بالکل!
میں نے ان سے استفسار کیا کہ پھر انہیں میرے سلام کے جواب میں   وعلیکم السلام کہنے میں کیا عذر تھا۔ جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ حالانکہ وہ السلام علیکم کا مطلب بخوبی جانتے تھے۔انہوں نے معذرت خواہانہ انداز اپنایا۔ جو ان کے چہروں سے عیاں تھا۔انہوں نے منزل تک پہنچنے کی میری رہنمائی کی۔ ان کا شکریہ ادا کر کے میں نئی منزل کی طرف گامزن تھا۔ مجھے رہ رہ کر امریکہ میں گزارے صبح دوپہر شام اور رات میں کہےجانے والے کلمات یاد آنے لگے۔ گڈ مارننگ کے جواب میں گڈ مارننگ ، گڈ ایوننگ کے جواب میں گڈ ایوننگ، ہیو اے نائس ڈے کے جواب میں یو ٹو،تھینک یو کے جواب میں یو آر ویلکم ضرور کہا جاتا تھا۔اگر کسی سے پوچھیں آپ کیسے ہیں جواب میں اچھا کہہ کر آپ کا احوال ضرور پوچھتا۔مگر مجھے اپنوں سے ہمیشہ شکایت رہتی ہے کہ وہ سلام کا جواب دینے میں تامل کرتے ہیں۔ حال احوال پوچھنے پر اجنبی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔فون کی گھنٹی بجنے پر ہیلو سے جواب دیا جاتا ہے۔ فون کرنے والا بھی ہیلو سے اپنا تعارف کراتا ہے۔ 
ہر واقف و ناواقف مسلمان کو سلام کہنا سنت ہے۔سلام کا جواب دینا واجب ہے کیونکہ اس کا حکم قرآن میں ہے سورۃ النساء آیت نمبر 86 میں یوں آیا ہے:
اور جب تمھیں کوئی کسی لفظ سے سلام کرے تو اس سے بہتر لفظ جواب میں کہو یا وہی کہہ دو۔
سلام کے لغوی معنی ہیں طاعت و فرمانبرداری کے لیے جھکنا، عیوب و نقائص سے پاک اور بری ہونا، کسی عیب یا آفت سے نجات پانا۔ سلام اسماء الحسنی یعنی اللہ تعالٰی کے صفاتی ناموں میں سے بھی ہے ۔ شریعت کی اصطلاح میں اس سے مراد دو یا دو سے زیادہ مسلمانوں کی آپس میں ملاقات کے وقت کی دعا یعنی السلام علیکم کہنا ہے۔ جواب کے لیے وعلیکم السلام کے الفاظ ہیں۔
ہمارے بزرگ بات کرنے کا سلیقہ اور بڑے بزگوں کے ساتھ پیش آنے کا طریقہ سکھاتے تھے۔ جسے جدید دنیا کے والدین نے نئے انداز سے بدل دیا ہے۔بچوں کو سبق یاد کروائے جاتے ہیں مگر آداب نہیں سکھلائے جاتے۔ہر شخص اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔اپنے ارد گرد نظر نہیں رکھتا۔معاشرے میں اجنبیت کا رحجان فروغ پا رہا ہے۔اگر یقین نہیں آتا تو  میری طرح اپنے گھر ، علاقہ سے    چھ آٹھ سال کے لئے دور رہ کر واپس لوٹیں گے تو احساس ہو گا کہ کہیں نہ کہیں ہم سے کچھ چھوٹ رہا ہے جیسے بلندی سے گرتے ہوئے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ سے چھوٹنے کے لئے پھسلتا ہے۔
ہم اپنی رائے کو دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسروں کے نظریات کو غلط ثابت کرنا فرض سمجھتے ہیں۔آخر کہیں تو کچھ ایسا ہو رہا جو تبدیلی کے مراحل خاموشی سے طے کر رہا ہے۔جس گاڑی کی بریک نہ ہو اس کے لئے انتہائی سپیڈ اور موٹر وے جیسی سڑک بھی بلا ضرورت ہے۔جس انسان میں اپنی خواہشوں کو روکنے کی حد نہ ہو اس کے لئے کامیابی شتر بے مہار کی مانند ہے۔ جیسے ڈھلوان کی بلندی سے  قلابازیاں کھا کر نیچے تک پہنچا جائے۔
دوسروں کی خوشیوں میں ماشااللہ کہہ کر شامل ہوا جاسکتا ہے۔انشااللہ کہہ کر خود آگے بڑھا جاسکتا ہے۔جزاک اللہ کہہ کر دوسروں میں ہمت و حوصلہ بڑھایا جاسکتا ہے۔اچھے وقت کا صبر سے انتظار کیا جاسکتا ہے۔سورۃ بقرہ میں ارشاد باری تعالی ہے ۔اے ایمان والو ! تم صبر اور نماز سے مدد مانگو۔بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
کینہ، حسد، لالچ سے بچ گئے تو محبت،قربت،شکر کے پھل سے فیضیاب ہوں گے۔نفرت، حقارت،گھمنڈ،ضد،غرور سے چھٹکارا مل گیا توقرب،اپنائیت،عجز و انکساری سے دامن بھرتے جائیں گے۔
سورج کو مشرق سے طلوع ہوتے روز دیکھتے ہیں۔خود کو مشرق میں غروب ہونے کا منظر آنکھوں میں سجاؤ تو گردش زمین آشکار ہوتی ہے۔جیسےپھل پر چھری چلا کراوپر سے نیچےتہہ تک کاٹتے ہیں ایسے ہی تہہ سے اوپر تک پھل کے مکمل ہونے کو نظروں میں بساؤ توقدرت اپنی طاقت کا لوہا منوانے پر اُتر آئے گی۔
ظاہر کی نفی سے باطن کی آگہی زمین سے تعلق اور قطع تعلق کے درمیانی فاصلوں کو بڑھاتی جائے گی۔قربت کے فاصلے عشق و محبت سے سمٹتے جائیں گے۔
وجود اپنے نہ ہونے اور عدم اپنے ہونے سے قیاس و حقیقت کے رشتے کو بندش و آزادی کے جہان اُلفت میں دیوانگی و جنون سے ایک کو گھٹاتا تو دوسرے کو بڑھاتا جائے گا۔
لیکن یہ تبھی ممکن ہو گا جب  دوسرے سے اختلاف سے پہلے خود کے تضاد کو عمل کی کسوٹی پر پرکھ کر یک اتفاقی  میں پرویا جائے  تو نا اتفاقی کی گانٹھیں خود بخود ڈھیلی ہونا شروع ہو جائیں گی۔
 جو اپنی ذات کو منوا لیتے ہیں وہ اپنی بات بھی منوا لیتے ہیں۔جو اپنی بات منوانے میں عمر گنوادیتے ہیں وہ اپنی ذات بھی گنوا لیتے ہیں۔
جو پانے کے لئے مضطرب رہتے ہیں وہ کھونے پہ بےچین ہو جاتے ہیں۔
 جن کا حاصل ان کا مقصود نہ ہو، ان کا مقصد لا حاصل رہتا ہے۔
جو   برترسے حسد کرتا ہے وہ  کم تر سے تکبر کرتاہے۔
جو خالق سے محبت کرتا ہے وہ مخلوق سے نفرت نہیں  کر تا۔
سچ کو ماننے والا سچ کو جاننے والا ہے۔
جو بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے وہ معاف کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔
جسے اختیار کا یقین ہے اسے بے اختیاری کی پرواہ نہیں۔
جسے ملنے کا یقین نہیں اس میں پانے کی شدتِ خواہش نہیں۔
قرآن سے جس کا لگاؤ نہیں اللہ کی طرف اس کا جھکاؤ نہیں۔

تحریر!   محمودالحق


5 تبصرے:

افتخار اجمل بھوپال said...

اتفاق کی بات کہ کچھ دن قبل میں نے روزمرہ کے عوامل کی ایک جھلک لکھ کر رکھی تھی جو آج صبح شائع کی تھی ۔ اُمید ہے پڑھ کر آپ کی پریشانی دور ہو جائے گی ۔ یا شاید بڑھ جائے

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

باریش نوجوان کا سلام کے جواب سے گریز کرنا ایک رویے کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ اپنے کام یا اپنے ماحول و حالات سے خوش نہیں ہے۔
اسکی اور بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔
جیسے تربیت کی کمی۔۔۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں تعلیم تو عام ہے مگر تربیت کا شدید فقدان ہے۔ بچپن میں اپنے نانا مرحوم اور والدہ کے ساتھ ایک رشتہ دار کی عیادت کے لیے گیا اور ہاسپٹل کے کمرے میں داخل ہوتے ہی بلند آواز سے سلام کیا۔ بعد میں واپسی پر نانا بے حد خفا ہوئے کہ تمہیں سلام کرنا بھی نہیں آتا۔ تمہاری گردن کیوں اکڑی رہتی ہے سلام کرتے ہوئے اور ہاتھ ماتھے تک کیوں نہیں لے جاسکتے۔۔اس دن کے بعد سے آج تک لکھنوی انداز کا سلام ہی کرتا ہوں۔
دوسری وجہ پبلک ڈیلنگ کی نزاکتوں سے نا واقف ہونا بھی ہوسکتا ہے جو بہت سوں کو بددل کردیتا ہے۔جہاں میں کام کرتا ہوں وہاں ہر شخس عجلت میں نظر آتا ہے۔ یہاں پر کلینک میں آنے والا یہ دیکھتے ہوئے کہ اندر ایک مریض بیٹھا ہوا ہے یا اس کا نمبر ابھی نہیں آیا ہے وہ دروازہ پر دستک دے کر سلام کرتا ہے ۔ ایسے میں سلام کا جواب دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اسے اندر آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔

جوانی پِٹّا said...

یہ اندر داخل ھو کر بلند آواز میں سلام کرنے والی حرکت میں بھی کرتا ھوں، لیکن کبھی غور نہیں کیا کہ کسی نے جواب دیا یا نہیں۔اب غور کروں گا۔ ویسے سچی بات ھے کہ اگر کوئی جواب نہیں بھی دیتا تو اس سے مجھے فرق نہیں پڑتا ۔

محمد ریاض شاہد said...

جناب آُ نے سلام کر کے اپنا فرض ادا کر دیا ہو سکتا ہے وہ اصحاب کسی مسئلے کی وجہ سے پریشان ہوں

Mahmood ul Haq said...

اجمل بھائی آپ کی وہ تحریر شائد سستی کی وجہ سے پڑھ نہیں پایا۔پڑھ لیتا تو شائد پریشانی کم ہو جاتی۔

ڈاکٹر جواد بھائی ہم بزرگوں سے بہت سی اچھی باتیں سیکھتے ہیں۔ جب ہم بچے تھے تو ہمارے محلے کے بزرگ رفیع صاحب جو مہناز رفیع (سیاستدان) کے والد گرامی تھے ۔ جب ہم گلی میں کھیلتے تو پاس سے گزرتے ہوئے لکھنوی انداز میں سلام کہتے۔ اور ہاتھ میں کچھ ہوتا تو کھانے کے لئے دیتے اب وہ رکھ رکھاؤ دیکھنے میں بہت کم ہیں۔

جوانی پٹا صاحب آپ بھی کمال بے فکری آزادی کے قائل ہیں۔ دعا کریں ہم بھی بے فکرے ہو جائیں اور دوسروں کی باتوں کا نوٹس نہ لیں۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔

ریاض شائد بھائی اللہ کرے ایسا ہی ہو۔مگر جیسے میں نے اوپر لکھا کہ سلام کہنا سنت ہے اور جواب دینا واجب ۔ہم بہت سے سوالوں کے جوابات قرآن سے تلاش کرتے ہیں۔ مگر روز مرہ پیش آنی والی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے بھی قرآن بہترین رہنمائی ہے۔

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter