Feb 14, 2014

مکالمہ


’’          آپ جیسے انسان کو آج کے دور میں کس نام سے پکارا جاتا ہے  ؟َ
:::  جی ! پاگل کہتے ہیں۔
’’       بالکل! پھر آپ عقل کی بات کیوں نہیں کرتے؟ 
:::  عقل والوں کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ تسلیم تو تبھی کیا جائے گا جب اس کی سمجھ آئے گی۔
’’       بھلا یہ بھی کوئی کام ہے ۔ صرف اس بات کو اپنے ذہن میں رکھیں کہ اس دنیا میں کامیابی کے لئے سچے اور کھرے پن سے چھٹکارا پانا ضروری ہے۔
:::  لیکن ایسی ہمت کہاں سے لاؤں جو اپنی کامیابی کے لئے دوسروں کو دھوکہ کی سولی پر قربان کر دیا جائے۔اس کے بدلے میں جو حاصل ہو وہ کاغذ کے چند لاکھ ٹکڑے ہوں گے جن سے سہولتیں ، آسائشیں تو خریدی جا سکتی ہیں۔ مگر کھلی آنکھ کا آرام اور گہری نیند کا سکون  نہیں۔اگرلوگ اس فلسفہ پر زندگی استوار کر لیں تو معاشرتی برتری کے تمام بت چکنا چور ہو جائیں گے۔
’’       باتیں سننے میں اچھی ہیں نصیحت کے لئے کارآمد ہیں طالبعلموں کو کلاس روم میں کتابوں کے ساتھ سنانے میں سویٹ ڈش کے طور پر کام دے سکتی ہیں۔مگر حقیقی زندگی میں ان پر عمل پیرا  رہ کر معاشی اور معاشرتی میدان میں  گولڈ میڈل نہیں جیتا جا سکتا۔
:::  لیکن اس بات کا ہار جیت سے کیا واسطہ؟ اگر موبائل فون کا نیا ماڈل ستر ہزار میں خریدنا درکار نہیں ،لینڈ کروزر میں بیٹھنے کی بے تابی نہیں،بیش قیمت محل دیکھ کر بھی جھونپڑی گرانے کی کوئی جلدی نہیں تو پھر زندگی کے بقایا ایام میں ایمان کی فروخت کا بورڈ آویزاں کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ حاصل اتنا کم ہے کہ جس کے لئے بیش بہا خزانے لٹانے پڑیں گے۔ایمانداری ، اعتبار کے انمول موتی جنہیں چنتے چنتے زندگی بیت گئی۔سودا بہت مہنگا ہے۔سب سے بڑھ کر جنہیں جسم و جاں  سے مالک و مختار مانتے ہیں۔عہدو پیماں کا جن سے بندھن ہے اسے اچانک کیسے توڑ دیں۔اس کے لئے ایک عمر چاہیے ہو گی ۔  زندگی جینے میں تو بہت آگے ہیں مگر رہنے میں بہت پیچھے ۔
’’         باتیں یہی سب اچھی ہیں۔ حقیقت سے جدا نہیں۔ اگر اختیار فائدہ پہنچا رہا ہو تو فرض کی گنجائش نکالنے کی ضرورت نہیں ۔ایک  ہجوم سا ہجوم ہے جس میں آگے بڑھنا ہی مجبوری ہے۔ پیچھے پلٹ کر دیکھنا بھی پاؤں تلے روندنے کا سبب ہو سکتا ہے۔مسئلہ پیچھے رہنے کا نہیں، ساتھ چلنے کا ہے۔ہوا کا رخ دیکھا جاتا ہے۔ بلندئ پرواز نہیں ۔ کون کہاں ہے یہ جاننا بہتر ہے ، نہ کہ وہ وہاں کیسے ہے۔
:::  آج زمانے کی چال مختلف ہے۔دور جدید ہے۔ایک انگلی کی پور سے کمپیوٹر ایک لفظ سے ایک دنیا کھول کر رکھ دیتا ہے۔لیکن سائنس ابھی تک ذہنی استعداد بڑھانے کے لئے ایک خاطر خواہ کام سر انجام نہ دے سکی جو کروڑوں میل کی مسافتیں ایک لحظہ میں آر پار کر سکیں۔ گھمسان کا رن تو بس اسی ایک زمین پر برپا ہے۔اسی کو کھود رہے ہیں اسی کو کھوج رہے ہیں۔دھاتیں ہوں پتھر یا تیل ۔ اسی کے ہونے یا نہ ہونے کے اسباب ہیں۔جو جتنا مال و متاع کا مالک اتنا ہی  لوگوں میں زیادہ پزیرائی کا حقدار ۔انسان  ایک پھول کی  مانندقسمت لے کر پیدا ہوا ہے جو کھلتا ہے خوشبو دیتا ہے پھر دھیرے دھیرے فنا ہو جاتا ہے۔ مگر حالات اسے کانٹا بننے پر اکساتے ہیں جو ایک زندگی تاحیات پانے کی جستجو کرتا ہے۔ بے فائدہ بے مقصد  جستجوء لا حاصل۔
’’          کبھی اپنے ارد گرد نظر تو ڈالو کتنے لوگ ملتے ہیں  جو پھول رہنا پسند کرتے ہیں مگر کانٹوں کے روپ میں۔پانا چاہتے ہیں دینا انہیں بھاری ہے۔حق جتاتے ہیں حق نبھاتے نہیں۔زندہ رہنے  سے انہیں سروکار ہے۔زندگی پانے سے نہیں۔جیسے طالب علم کو پڑھائی سے زیادہ  امتحانات میں حاصل کردہ نمبروںسے۔ملازمت میں کام سے زیادہ اجرت سے۔فائدے کے لئے ہر نقصان کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔پھر کیوں نہیں مان لیتے کہ حاصل وہی ہے جس کی تمنا سب سے زیادہ لوگ کرتے ہیں۔
:::   لوگوں کی بات مجھ سے نہیں کرو ۔ ترقی کی رفتار بڑھنے سے بہت پہلے بھی یہ سچ کو جھٹلاتے رہے ہیں ۔ پیغام انسانیت کو بھلاتے رہے ہیں۔ نبیوں کو جھٹلاتے رہے ہیں۔حق کو کمزور جان کر باطل سے ہاتھ ملاتے رہے ہیں۔اہرام مصر سے تاج محل تک اپنی طاقت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ مگر دنیا میں چھوڑے ان کے پتھر آج بھی سامان عبرت ہیں۔چاہے وہ کوہ نور ہیرا ہی کیوں نہ ہو۔آج حق بات کہنے کی ضرورت شائد زیادہ ہے۔باطل اور جھوٹ  ایسا بے ثمر درخت ہے جس کی شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔جڑیں زمین میں ہونے کے باوجود زمین والوں سے بہت دور رہتا ہے۔ گوگل سرچ باطل‘ کے تینتیس لاکھ اسی ہزار رزلٹ دکھاتا ہے۔اور ’حق‘ کے تین کروڑ بیالس لاکھ ۔  حق لفظ ہی باطل پر کئی گناہ بھاری ہے۔ کیسے ثابت کرو گے کہ حق پر رہنے والے کم پڑ رہے ہیں۔ حق لکھنے والے اور کہنے والے آج بھی باطل پر بھاری ہیں۔جو راستہ بھٹک گئے ہیں وہ بھٹکے ہوئے نہیں ہیں ۔ اہرام مصر اور تاج محل نے انہیں محبت سنگ  کی لازوال کہانی سنائی ہے۔ جو ادھوری ہے نا مکمل بھی ہے۔کیونکہ خلق خالق کی محبت بنا ادھورا ہے۔خالق حقیقت بھی ہے اور اختیار بھی۔راہ  بھی وہی ہے چاہ بھی وہی۔

محمودالحق

3 تبصرے:

افتخار اجمل بھوپال said...

جی ۔ میں بھی پاگل ہوں بڑے بڑوں نے میرا علاج کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے ۔ زندگی کی سات دہائیاں گذر گئیں ۔ اب عقل کی ضرورت بھی کیا ہے ؟

کوثر بیگ said...

ایسے پاگلوں پہ لاکهوں ہوش مند قربان
بہت عمدہ تحریر

Mahmood ul Haq said...

ایسے پاگلوں کا علاج ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہوش مند اپنے حواس کھو بیٹھتے ہیں۔یہ ایک لا علاج مرض ہے جو توقیری اور سرفرازی کی سر شاری میں رہتا ہے۔

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter