یا خدا یا خدا سن لے تو میری صدا
خوشی گر کم نہیں غم رہتا نہیں سدا
موت پہ جن کے منڈلاتے سایہ رزقِ کفن کے
نفس ِ آدمیت سے کٹتے روحِ ایمان سے جدا
زمین سے چھپاتے عرش آسماں سے ٹکراتے
جھکتے نہیں جو اُٹھائے جاتے وہ نورالہدیٰ
خط تو آ چکا اطلاع کی رات ہے باقی
راستہ خود ہوتا روشن شب نہیں جن کی خوابیدہ
تامل ہے بے نام اوسان پھر کیوں ہیں خطا
بھروسہ پہ جو رکھ دیتے اپنا سر سجدہ، خدا
کاغذی پیراہن سود و زیاں ہاتھوں ہاتھ میں
آب ریشم ہیں اوڑھ لیتے جو اپنی باطن ردا
کالی رات ہے قلم سیاہی ورق سیاہ پر
شہہ رگ سے جدا خود پہ پھر کیوں فدا
محمودالحق
۔۔۔٭۔۔۔
0 تبصرے:
Post a Comment