دوسروں کے قدموں کے نشانات پر چلتے چلتے بھول جاتے ہیں کہ اس راستہ میں پگڈنڈیاں نشاندہی نہیں کرتی بلکہ سب ہی اپنے راستوں کے قطب ستارہ ہیں۔
قلب کی قربتیں جسموں پربہت بھاری ہوتی ہیں۔ اس رشتے کو ہمیشہ ساتھ رکھیں جو روح کے لئے ایک لطیف ہوا کے جھونکے کا احساس رکھتا ہے ۔
پر آسائش گداز بستر ہو یا آرام دہ سفر چند پل کے بعد وہی بدن اکتاہٹ و مجبوری میں بدل جاتا ہے۔
ہمارا سفر ایک ہے اور منزل بھی ایک ہوتی ہے مگر مسافر روز الگ الگ ہیں۔منزلیں سب کی بظاہر تو ایک ہیں اور راستے بھی بظاہرایک مگر وہ فنا کے راستے ہیں اسی لئے تو ایک ہیں۔
انا کا ایک خاموش بت شخصیت کے گرد حلقہ بنائے محبت کے پجاریوں کے جھکنے سے تسکین پانے میں نشہ کے جام چھلکاتا ہے۔
جو پانے کے لئے دکھوں کے روگ پال لیتے ہیں۔ کھونا جنہیں دل کا روگی بنا دے۔ ہمدردی سے ایک بار پھر انا کی بازی جیتنے سے توانائی کے طالب ہوتے ہیں۔
جو محبت حق جتانے سے جیت سے ہمکنار ہو وہ دیرپا نہیں ہوتی اور جو حق پانے سے مالک کی ملکیت میں سونپ دے، موت کی پناہ میں وہ زندگی زندہ رہتی ہے۔
جو محبت بھوک مٹا دے وہ بدن سے توانائی تو ذہن سے سچائی مٹا دیتی ہے۔آنکھیں چمک تو زبان الفاظ کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
قابل رحم ہیں جو سچی محبت کا روگ الاپتے مگر پانے اور کھونے کے غیر محسوس ڈر کا شکار رہتے ہیں۔
مجازی محبت کا نشہ شراب کی طرح سر چڑھ کر چکرا دیتا ہے۔ کھولتے ہوئے پانی کی مانند صرف بھاپ بن بن اُڑتا ہے۔ جو آخری قطرہ تک بھی پانی ہی رہتا ہے۔
زندگی کے راستے فیصلوں کے محتاج نہیں ہوتے۔بلکہ اسباب کی پگڈنڈیاں راستوں کی نشاندہی میں بدل جاتی ہیں۔
پھول کھلنے سے پہلے اپنی مہک سے اعلان بہار نہیں کرتے بلکہ پوشیدگی کے عمل تولیدگی میں چھپے رہتے ہیں۔
اگر صبر و شکر میں انتظار رہے تو مادیت کے کرب سے روح محو پرواز رہتی ہے۔
خواہش میں انتظار ہو توکرب ، اسباب ہوں تو فرحت کا باعث ہیں۔
پھول کھلنے کے لئے کانٹے کافی نہیں ، نئے پتوں کا انتظار رہتا ہے۔
بادل ٹہلنے سے دھواں ہیں مگر دھواں برسنے میں بادل نہیں۔
جو موسم کا انتظار نہیں کر سکتے وہ پھلوں کی چاشنی سے محروم رہ جاتے ہیں۔
جو فیصلوں کے انتظار میں رہتے ہیں کرب نہیں جھیلتے، راحت پاتے ہیں۔
خوش نصیب ہیں وہ جو دل کے رشتوں کے قریب بستے ہیں۔فاصلے چاہے جتنے بھی زیادہ کیوں نہ ہوں مگر محسوس انہیں ہمیشہ قریب ہی کرتے ہیں۔
محبت رکھنے والے کبھی بھی ایسا فعل سر انجام نہیں دیتے کہ جس سے دیکھنے والا فعل کی نسبت محبوبیت سے جدا کر سکے۔
آنسو جن کے قریب سے نہ گزرے ہوں وہ ان میں بہہ جاتے ہیں۔
جسے اپنی منزل تک رسائی کی جتنی جلدی ہوتی ہے ان قدموں کا ساتھ دست و بازو بھی پوری تندہی سے دے رہے ہوتے ہیں اور ایک وفادار غلام کی طرح ہوس و حرس کے آقا کی دلربائی کا اہتمام کرنے میں جتے رہتے ہیں۔
دوسروں کے آئینے میں اپنا عکس دیکھنے والے بھول جاتے ہیں خوشبو سدا نہیں مہکتی، جوانی سدا نہیں رہتی، اس مٹی سے پیدا ہر چیز مٹی ہو جاتی ہے۔
تکلیفیں ،پریشانیاں ،دکھ انسان کو کمزور کرنے نہیں آتے بلکہ وجود میں صبر، برداشت، ایمان کی پختگی کا پیغام لاتے ہیں۔
بدن روح کی طاقت کا محتاج ہے جو اسے ہم دیتے ہیں کمزوری کا سبب بنتا ہے۔ آسائش، سہولت، شاندار طرز زندگی اسے اپنے اصل سے بہکاوہ کی ترغیب دلاتے ہیں۔
بیج سے پیدا ہونے والا پودا دو بار جینے کی جنگ لڑتا ہے۔ پہلے بیج سے اور پھر زمین سے نکلتے وقت ۔ اس کے بعد وہ حالات کے رحم و کرم پر چلا جاتاہے۔بارش کی کمی بیشی اور دھوپ چھاؤں میں بڑھنے اور پھلنے پھولنے میں محتاج دعا ہو جاتا ہے۔ وہاں وہ کسی کو بہت زیادہ خوشی دیتا ہے تو کسی کو مایوسی و اداسی۔
کوشش میں اگر کمی ہو تو حالات کی ذمہ داری قسمت پر ڈال دی جاتی ہے جو رو دھو کر شکوہ پر ختم ہوتا ہے۔
کمزور پودے زندگی تو پالیتے ہیں مگر طوفانی حالات کے تھپیڑوں سے اپنے آپ کو نہیں بچا پاتے۔
عالم فناہے تو علم بقا ہے،عامل فناہے تو عمل بقا ہے ،جسم فناہے تو روح بقاہے ،زخم فنا ہے تو درد بقا ہے ،دوا فنا ہے تو اثر بقاہے ،محبوب فنا ہے تو محبت بقا ہے ،ماں فنا ہے تو مامتا بقا ہے۔
جو آنی جانی شے کی محبت میں بلا خوف و خطر قلم تحریر سے قلب حال بیان کرتے ہیں۔ انہیں حقیقی حق محبت کے جلوؤں کی تاب کہاں رہے گی۔
سچی محبت کا حقدار تو صرف وہی ہے جو داتا ہے، غنی ہے ، غفور ہے ، رحیم ہے ، محبتیں اس کی امین ہیں ،
گھر کے مکین مالک ہوتے ہے ،گلیاںمسافروں کی راہگزر بنی رہتی ہیں۔ مکین شک و شبہ میں رہتے ہیں۔مسافر پلکوں پہ بٹھائے جاتے ہیں۔مکینوں سے محبت کا دعوی ،مسافروں سے پینگیں بڑھائی جاتی ہیں۔
ایک در کا سوالی ضرورت مند ہوتا ہے۔در در کا سوالی در بدر رہتا ہے۔
شائدانسان تخلیق سے متاثر ہو کر اس کے زیر اثر لکھنے پر مجبور ہوتا ہے۔
شمع جلنے سے پہلے بھی موم ہوتی ہے اور بعد میں بھی مگر روشنی موم سے نہیں سبب سے ہو تی ہے۔
کوئی بھی کام مشکل تبھی ہوتا ہے جب وہ پوشیدہ رہتا ہے۔ سبب ظاہر ہونے پر تو وہ قیاس بن جاتا ہے اچھا یا برا۔
ہوائیں تیز ہو جائیں تو آندھیوں کی پشین گوئی کرتی ہیں۔ بادل بھاگتے بھاگتے جمگھٹی گھٹائیں بن جائیں تو برسنے کی نوید بن جاتے ہیں مگر بخارات بادل بننے سے قبل اپنا وجود پوشیدہ رکھتے ہیں۔
جب نظام کائنات نے اپنا وجود اسی کے حکم کے تابع کردیا تو پھر نظام حیات کے متعلق قیاس و گمان کیوں رہتا ہے۔
اللہ تعالی کے فیصلے انتظار کی اذیت سے دوچار نہیں کرتے۔بلکہ بروقت راحت و تسکین کا باعث ہوتے ہیں۔
ہر راستے پر کھڑا نیا موڑ اگلے راستہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ منزل تک پہنچنے کے لئے راستے نہیں ناپے جاتے بلکہ موڑ ان راستوں کی نشاندہی کرتے ہیں جو منزل کی طرف جاتے ہیں۔
اندھیرے جو دکھاتے ہیں سورج انہیں چھپا دیتا ہے۔نظروں کے سامنے اپنا منظر پیش کرتاہے۔آنکھیں اسی کی عادی ہو جاتی ہیں اور اسی کو دیکھنا پسند کرتی ہیں۔اندھیروں سے خوف کھانے لگتی ہیں۔
قدم راستوں سے شناسانہیں ہوتے روشنی کے تابع ہوتے ہیں۔
ہر شے اپنی جگہ موجود رہتی ہے اور سبب سے تعلق کی بنا پر نظر سے جڑی رہتی ہیں۔
روح احساسات بدنِ فانی سے چند لمحوں کے لئے آزاد رہتی ہے،پھر تو اگلی آزادی تک جسم جسموں پر چنگھاڑتے برستے آگ اگلتے روز ہی فنا ہوتے ہیں۔
جوں جوں تفکر ایمان بڑھتا چلا جا تا ہے وجود اس کے مقابل کمزور سے کمزور ہوتاجاتا ہے۔
محنت کی آبیاری سے صبر و شکر کی فصل تیار ہوتی ہے۔خیالات کی کھیتی میں شکوہ کی فصل کاٹی جاتی ہے۔
لکھنا قلم سے ہو تو قلمی دوستی سے آگے نہیں بڑھ پاتی مگر قلب سے لکھنا قلبی تعلق تک وسیع ہے۔
آنکھوں سے دیکھنا صفحات پر اترتا چلا جائے تو نشتر بن کر زخم دیتا ہے۔ قلب سے جو اترے تو خنجر بن جاتا ہے
جو کھونے کے خوف سے پہلے سے جمع سنبھالنے میں آنکھیں بند اور ہاتھ باندھ لیتے ہیں۔ وہ دینے والے کے انعامات سے بھی منہ موڑ لیتے ہیں۔
زندگی کا کھیل آنکھ مچولی نہیں کہ ایک چھپ جائے تو ڈھونڈتے رہو۔یہ منظر اور نظر کی محبت کا کھیل ہے۔
نظر جب پانے کی خواہش پالیتی ہے تو منظرمنظورنظر ہو جاتے ہیں اور نظر میں بس جاتے ہیں۔ اوجھل روشنی ہوتی ہے منظر اندھیرے میں بھی روشن رہتے ہیں۔
اللہ تعالی نے جسم کو زمین کی قید سے آزادی کے لئے صبر و شکر ، استقامت اور عبادت کا پروانہ تھما دیا۔
روشنیوں میں راہ پانے والے اندھیروں سے چھپتے ہیں۔روشنی کے جگنو دن میں خود چلتے تو اندھیرے میں راہ دیکھاتے ہیں۔
قرآن و سنت اندھیروں میں روشنی سے اجالا لانے کا ذریعہ ہے۔اب بھی کوئی اندھیرے میں رہنا چاہتا ہے تو ایسی عقل پہ ماتم کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
زندگی میں بہت سی باتیں سمجھ آنے کے باوجود سمجھ سے بالا تر ہوتی ہیں۔
انسانی تخیل سے نکلتے افکار اظہار رائے کا شاہکار تو ہو سکتے ہیں مگر زندگی کی سچائی نہیں ۔
سوچ بن کر وہی زندہ رہتے ہیں جو ناکامی کو قسمت کا کھیل سمجھ کر ہتھیار نہیں ڈالتے بلکہ بار بار کی کوشش سے آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہیں۔
محمودالحق
قلب کی قربتیں جسموں پربہت بھاری ہوتی ہیں۔ اس رشتے کو ہمیشہ ساتھ رکھیں جو روح کے لئے ایک لطیف ہوا کے جھونکے کا احساس رکھتا ہے ۔
پر آسائش گداز بستر ہو یا آرام دہ سفر چند پل کے بعد وہی بدن اکتاہٹ و مجبوری میں بدل جاتا ہے۔
ہمارا سفر ایک ہے اور منزل بھی ایک ہوتی ہے مگر مسافر روز الگ الگ ہیں۔منزلیں سب کی بظاہر تو ایک ہیں اور راستے بھی بظاہرایک مگر وہ فنا کے راستے ہیں اسی لئے تو ایک ہیں۔
انا کا ایک خاموش بت شخصیت کے گرد حلقہ بنائے محبت کے پجاریوں کے جھکنے سے تسکین پانے میں نشہ کے جام چھلکاتا ہے۔
جو پانے کے لئے دکھوں کے روگ پال لیتے ہیں۔ کھونا جنہیں دل کا روگی بنا دے۔ ہمدردی سے ایک بار پھر انا کی بازی جیتنے سے توانائی کے طالب ہوتے ہیں۔
جو محبت حق جتانے سے جیت سے ہمکنار ہو وہ دیرپا نہیں ہوتی اور جو حق پانے سے مالک کی ملکیت میں سونپ دے، موت کی پناہ میں وہ زندگی زندہ رہتی ہے۔
جو محبت بھوک مٹا دے وہ بدن سے توانائی تو ذہن سے سچائی مٹا دیتی ہے۔آنکھیں چمک تو زبان الفاظ کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
قابل رحم ہیں جو سچی محبت کا روگ الاپتے مگر پانے اور کھونے کے غیر محسوس ڈر کا شکار رہتے ہیں۔
مجازی محبت کا نشہ شراب کی طرح سر چڑھ کر چکرا دیتا ہے۔ کھولتے ہوئے پانی کی مانند صرف بھاپ بن بن اُڑتا ہے۔ جو آخری قطرہ تک بھی پانی ہی رہتا ہے۔
زندگی کے راستے فیصلوں کے محتاج نہیں ہوتے۔بلکہ اسباب کی پگڈنڈیاں راستوں کی نشاندہی میں بدل جاتی ہیں۔
پھول کھلنے سے پہلے اپنی مہک سے اعلان بہار نہیں کرتے بلکہ پوشیدگی کے عمل تولیدگی میں چھپے رہتے ہیں۔
اگر صبر و شکر میں انتظار رہے تو مادیت کے کرب سے روح محو پرواز رہتی ہے۔
خواہش میں انتظار ہو توکرب ، اسباب ہوں تو فرحت کا باعث ہیں۔
پھول کھلنے کے لئے کانٹے کافی نہیں ، نئے پتوں کا انتظار رہتا ہے۔
بادل ٹہلنے سے دھواں ہیں مگر دھواں برسنے میں بادل نہیں۔
جو موسم کا انتظار نہیں کر سکتے وہ پھلوں کی چاشنی سے محروم رہ جاتے ہیں۔
جو فیصلوں کے انتظار میں رہتے ہیں کرب نہیں جھیلتے، راحت پاتے ہیں۔
خوش نصیب ہیں وہ جو دل کے رشتوں کے قریب بستے ہیں۔فاصلے چاہے جتنے بھی زیادہ کیوں نہ ہوں مگر محسوس انہیں ہمیشہ قریب ہی کرتے ہیں۔
محبت رکھنے والے کبھی بھی ایسا فعل سر انجام نہیں دیتے کہ جس سے دیکھنے والا فعل کی نسبت محبوبیت سے جدا کر سکے۔
آنسو جن کے قریب سے نہ گزرے ہوں وہ ان میں بہہ جاتے ہیں۔
جسے اپنی منزل تک رسائی کی جتنی جلدی ہوتی ہے ان قدموں کا ساتھ دست و بازو بھی پوری تندہی سے دے رہے ہوتے ہیں اور ایک وفادار غلام کی طرح ہوس و حرس کے آقا کی دلربائی کا اہتمام کرنے میں جتے رہتے ہیں۔
دوسروں کے آئینے میں اپنا عکس دیکھنے والے بھول جاتے ہیں خوشبو سدا نہیں مہکتی، جوانی سدا نہیں رہتی، اس مٹی سے پیدا ہر چیز مٹی ہو جاتی ہے۔
تکلیفیں ،پریشانیاں ،دکھ انسان کو کمزور کرنے نہیں آتے بلکہ وجود میں صبر، برداشت، ایمان کی پختگی کا پیغام لاتے ہیں۔
بدن روح کی طاقت کا محتاج ہے جو اسے ہم دیتے ہیں کمزوری کا سبب بنتا ہے۔ آسائش، سہولت، شاندار طرز زندگی اسے اپنے اصل سے بہکاوہ کی ترغیب دلاتے ہیں۔
بیج سے پیدا ہونے والا پودا دو بار جینے کی جنگ لڑتا ہے۔ پہلے بیج سے اور پھر زمین سے نکلتے وقت ۔ اس کے بعد وہ حالات کے رحم و کرم پر چلا جاتاہے۔بارش کی کمی بیشی اور دھوپ چھاؤں میں بڑھنے اور پھلنے پھولنے میں محتاج دعا ہو جاتا ہے۔ وہاں وہ کسی کو بہت زیادہ خوشی دیتا ہے تو کسی کو مایوسی و اداسی۔
کوشش میں اگر کمی ہو تو حالات کی ذمہ داری قسمت پر ڈال دی جاتی ہے جو رو دھو کر شکوہ پر ختم ہوتا ہے۔
کمزور پودے زندگی تو پالیتے ہیں مگر طوفانی حالات کے تھپیڑوں سے اپنے آپ کو نہیں بچا پاتے۔
عالم فناہے تو علم بقا ہے،عامل فناہے تو عمل بقا ہے ،جسم فناہے تو روح بقاہے ،زخم فنا ہے تو درد بقا ہے ،دوا فنا ہے تو اثر بقاہے ،محبوب فنا ہے تو محبت بقا ہے ،ماں فنا ہے تو مامتا بقا ہے۔
جو آنی جانی شے کی محبت میں بلا خوف و خطر قلم تحریر سے قلب حال بیان کرتے ہیں۔ انہیں حقیقی حق محبت کے جلوؤں کی تاب کہاں رہے گی۔
سچی محبت کا حقدار تو صرف وہی ہے جو داتا ہے، غنی ہے ، غفور ہے ، رحیم ہے ، محبتیں اس کی امین ہیں ،
گھر کے مکین مالک ہوتے ہے ،گلیاںمسافروں کی راہگزر بنی رہتی ہیں۔ مکین شک و شبہ میں رہتے ہیں۔مسافر پلکوں پہ بٹھائے جاتے ہیں۔مکینوں سے محبت کا دعوی ،مسافروں سے پینگیں بڑھائی جاتی ہیں۔
ایک در کا سوالی ضرورت مند ہوتا ہے۔در در کا سوالی در بدر رہتا ہے۔
شائدانسان تخلیق سے متاثر ہو کر اس کے زیر اثر لکھنے پر مجبور ہوتا ہے۔
شمع جلنے سے پہلے بھی موم ہوتی ہے اور بعد میں بھی مگر روشنی موم سے نہیں سبب سے ہو تی ہے۔
کوئی بھی کام مشکل تبھی ہوتا ہے جب وہ پوشیدہ رہتا ہے۔ سبب ظاہر ہونے پر تو وہ قیاس بن جاتا ہے اچھا یا برا۔
ہوائیں تیز ہو جائیں تو آندھیوں کی پشین گوئی کرتی ہیں۔ بادل بھاگتے بھاگتے جمگھٹی گھٹائیں بن جائیں تو برسنے کی نوید بن جاتے ہیں مگر بخارات بادل بننے سے قبل اپنا وجود پوشیدہ رکھتے ہیں۔
جب نظام کائنات نے اپنا وجود اسی کے حکم کے تابع کردیا تو پھر نظام حیات کے متعلق قیاس و گمان کیوں رہتا ہے۔
اللہ تعالی کے فیصلے انتظار کی اذیت سے دوچار نہیں کرتے۔بلکہ بروقت راحت و تسکین کا باعث ہوتے ہیں۔
ہر راستے پر کھڑا نیا موڑ اگلے راستہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ منزل تک پہنچنے کے لئے راستے نہیں ناپے جاتے بلکہ موڑ ان راستوں کی نشاندہی کرتے ہیں جو منزل کی طرف جاتے ہیں۔
اندھیرے جو دکھاتے ہیں سورج انہیں چھپا دیتا ہے۔نظروں کے سامنے اپنا منظر پیش کرتاہے۔آنکھیں اسی کی عادی ہو جاتی ہیں اور اسی کو دیکھنا پسند کرتی ہیں۔اندھیروں سے خوف کھانے لگتی ہیں۔
قدم راستوں سے شناسانہیں ہوتے روشنی کے تابع ہوتے ہیں۔
ہر شے اپنی جگہ موجود رہتی ہے اور سبب سے تعلق کی بنا پر نظر سے جڑی رہتی ہیں۔
روح احساسات بدنِ فانی سے چند لمحوں کے لئے آزاد رہتی ہے،پھر تو اگلی آزادی تک جسم جسموں پر چنگھاڑتے برستے آگ اگلتے روز ہی فنا ہوتے ہیں۔
جوں جوں تفکر ایمان بڑھتا چلا جا تا ہے وجود اس کے مقابل کمزور سے کمزور ہوتاجاتا ہے۔
محنت کی آبیاری سے صبر و شکر کی فصل تیار ہوتی ہے۔خیالات کی کھیتی میں شکوہ کی فصل کاٹی جاتی ہے۔
لکھنا قلم سے ہو تو قلمی دوستی سے آگے نہیں بڑھ پاتی مگر قلب سے لکھنا قلبی تعلق تک وسیع ہے۔
آنکھوں سے دیکھنا صفحات پر اترتا چلا جائے تو نشتر بن کر زخم دیتا ہے۔ قلب سے جو اترے تو خنجر بن جاتا ہے
جو کھونے کے خوف سے پہلے سے جمع سنبھالنے میں آنکھیں بند اور ہاتھ باندھ لیتے ہیں۔ وہ دینے والے کے انعامات سے بھی منہ موڑ لیتے ہیں۔
زندگی کا کھیل آنکھ مچولی نہیں کہ ایک چھپ جائے تو ڈھونڈتے رہو۔یہ منظر اور نظر کی محبت کا کھیل ہے۔
نظر جب پانے کی خواہش پالیتی ہے تو منظرمنظورنظر ہو جاتے ہیں اور نظر میں بس جاتے ہیں۔ اوجھل روشنی ہوتی ہے منظر اندھیرے میں بھی روشن رہتے ہیں۔
اللہ تعالی نے جسم کو زمین کی قید سے آزادی کے لئے صبر و شکر ، استقامت اور عبادت کا پروانہ تھما دیا۔
روشنیوں میں راہ پانے والے اندھیروں سے چھپتے ہیں۔روشنی کے جگنو دن میں خود چلتے تو اندھیرے میں راہ دیکھاتے ہیں۔
قرآن و سنت اندھیروں میں روشنی سے اجالا لانے کا ذریعہ ہے۔اب بھی کوئی اندھیرے میں رہنا چاہتا ہے تو ایسی عقل پہ ماتم کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
زندگی میں بہت سی باتیں سمجھ آنے کے باوجود سمجھ سے بالا تر ہوتی ہیں۔
انسانی تخیل سے نکلتے افکار اظہار رائے کا شاہکار تو ہو سکتے ہیں مگر زندگی کی سچائی نہیں ۔
سوچ بن کر وہی زندہ رہتے ہیں جو ناکامی کو قسمت کا کھیل سمجھ کر ہتھیار نہیں ڈالتے بلکہ بار بار کی کوشش سے آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہیں۔
محمودالحق
0 تبصرے:
Post a Comment