سائنسدانوں نے ایک ایسی مشین ایجاد کر لی ہے کہ جس سے قوت
کشش کوجانچا جا سکتا ہے۔زمین اور چاند کے درمیان ،سورج اور زمین کے درمیان استعمال ہونے والی قوت کیسے کام کرتی ہے ۔کہتے ہیں کہ چاند اور زمین کے درمیان کار فرما
قوت زیادہ طاقتور ہے سورج اور زمین کے درمیان کی قوت سے۔ پہاڑ چاہے جتنے بھی بڑے
کیوں نہ ہوں مگر ایٹم کازرہ کام بہت بڑے کرتا ہے۔فی الحال اتنا ہی کافی ہےہم جیسے
انسانوں کو سمجھنے کے لئے گلیکسیوں کے درمیان یہ قوت کیا ہے ابھی اس پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔
جنہوں نے اس مشین کے بارے میں جاننا ہے وہ جان لیں کہ نیٹ
پر تلاش کا کام شروع نہیں کریں۔ کیونکہ مضمون کے شروع میں میں لکھنابھول گیا کہ یہ
ایک خواب کا حال بیان کر رہا ہوں۔
چلیں جان چھوٹی خامخواہ ہی وقت برباد ہوتا تلاش پر۔ اب یہاں مزید رہنا خطرے سے خالی نہیں ،آگے نا سمجھ آنے
والی لفاظی کے نشتر چبھوئے تو تیر چلائے جائیں گے۔
جناب زرا دل تھام کر رکھیں فوجی تو ہیں نہیں توپ چلانے سے رہے۔ تاریخ پڑھی ہے زوالوجی
باٹنی یا میتھ کی گھمن گھیریاں سیدھے کرنے سے رہے۔ جو سیکھا ہے ، جو کام آتا ہے
اسی پر اکتفا کریں گے۔اگر طوطا "طوطا چشم" نہ ہوتا تو قسمت کا حال
بتاتے۔ کارڈ ریڈنگ میں یکتا ہوتے تو بچوں کو ولائت بھجواتے بزرگوں کو کعبہ۔ شاعر
ہوتے تو کنگن گھماتے۔ عاشق ہوتے تو ہیر رانجھا سناتے۔
طاقتور ہوتے تو غریبوں کا سانس سکھاتے۔ حکمران ہوتے تو زبان
چلاتے۔صحافی ہوتے تو جادو دکھاتے۔منصف ہوتے تو مظلوم رلاتے۔ لیڈر ہوتے قوم دھرنا
بٹھاتے۔
اب جب کہ کچھ بھی نہیں تو جو میری بیچارگی پر ترس کھا ئے
ابھی تک ثابت قدم ڈٹے ہیں۔
انہیں میرا سلام
کیونکہ یہاں تک
پہنچ کر میدان میں کھڑے رہنے والے جان جائیں گےکہ قوت کشش کیا ہے۔ ایک جھلک تو دیکھ چکے
کمزور ہی سہی لفظوں کی کشش نے یہاں سے ہلنے نہیں دیا۔ حالانکہ یہاں ابھی تک کوئی
منطقی سوچ نہیں۔جسے اوپر بیان کیا اگر خواب نہ کہتا تو سو میں نوے عینکیں ناک پہ ٹکاتے۔ بچوں کو جھاڑیں پلاتے ماؤں
کو بیش قیمت مصروفیت جتاتے۔ کف کے بٹن کھول کالر کا بٹن ہٹا گردن لڑھکاتے ،مجھے سو
سو صلواتیں سناتے کہ وقت برباد کیا۔اس سے
تو اچھا تھا صاحب مضمون کا پورا مضمون پڑھ لیتے۔فائدہ نہیں ہٹ کاؤنٹر میں ایک عدد اضافہ
سے اپنا قد بڑھاتے۔
چھوٹے بھائی بہنیں تو ادب میں منہ بڑبڑاتےگردن جھٹکاتے نکل
کھڑے ہوئے ڈرامہ دیکھنے کہ چینل ہی تھیٹر
بنا ہوا ہے۔وہ پیسے بھی کماتے ہیں عزت بھی تھانوں افسروں کے سامنے کرسیاں بھی۔
معصوم سیدھے بلاگرز جان توڑ محنت سے چند فقرے دیکھنے کو
آنکھیں مہینوں گھماتےکہ شائد میرا کام کسی کو اچھا لگے۔ لیکن یہ نہیں جانتے کہ ایک
مشہور مثال ہے
مال ِ مفت دلِ بے رحم
ہماری تحریوں کا حال کسی گاؤں کے چودھری کی بیٹی پر بن
بلائے گاؤں کے کمیوں کا کھانوں پر ٹوٹ پڑنے جیساہے۔نہ ہی کھانے والے کا پیٹ بھرا اور
نہ ہی دیگ بنانے والے کی محنت کا صلہ۔اب تو پڑی کہ پڑیں لیکن جناب گستاخی کہاں
کی۔صرف اپنا حال سنایا ہےکہ زمین پر پڑا ادھ کھایا رزق اچھا نہیں لگا۔
عقلمند ہوتے تو لکشمی چوک لاہور میں مرغی کی کلیجی اور پوٹے
بیچنے والوں ہی سے کچھ سیکھ لیتے کہ مرغی کی قیمت کے برابرتو وہ بھی بچا ہی لیتے
ہیں۔کان میں سرگوشی بھی اب سننے لگی ہے ۔ غصہ کرتا ہے کام کوئی آتا نہیں۔لکھنا
کیسے آ سکتا ہے۔ حالانکہ تختی تو بہت لکھی ہے مگر جمیل نوری نستعلیق نے ہماری محنت
پر پانی پھیر دیا۔
کمپیوٹر پر لکھو پرنٹر سے نکالو ۔ شاہکار تیار۔
ل لمبی کرو توچ
چھوٹی ہو جاتی ہے ۔الف اونچا کرو ن نیچا رہ جاتا ہے۔ک کو کھینچو تو ت تنگ ہو جاتا
ہے۔
اب فیصلہ کریں کہ رضیہ کا غنڈوں میں پھنسنے جیسا حال ہےکہ
نہیں۔پھر یہ طعنہ سننے کو ملے کتھوں پڑھے او۔تو جناب پھٹیاں تے بیٹھ پڑھیں اں۔صوفے
تو سکولوں میں ہوتے نہیں۔کتابیں مفت چھاپیں بورڈ والے ملتی پھر بھی قیمتا
ہیں۔بینچوں کے کیلوں سے ہماری تو ہماری بڑے بھائی کی نیکر اور چھوٹے بھائی کی پینٹ
بھی چھدوا چکے۔ گالیاں وکھری کھا چکے۔ جوتے۔۔۔ او ہو ۔۔۔۔۔جوتے میرے ہی تھے۔کوئی
آئیڈیا نہ نکالنا شروع کر دیں عزت والے ہیں سکول میں ڈنڈے اکثر کھائے ہیں مگر جوتے
۔۔۔۔۔ نہیں نہیں وہ تو آماں نے دودھ پینے آنے والی بلی کو رسید کیا تھا۔ہمارامنہ
بلی کی طرف تھا ۔سو کمر کافی دن دکھتی رہی۔
آپ بھی نہ بال کی کھال اُتارنا شروع ہو جاتے ہیں۔جوتے
اُتاریں ۔ آج کپڑوں سمیت ہی ٹوٹی یعنی نلکے کے نیچے سر دے کر "جیسے کسی زمانہ
میں نائی بچوں کا سر گھٹنوں میں دے کرٹنڈ
کیا کرتے تھے" ٹھنڈے پانی سے غسل شکر کریں کہ بتی نہ سہی پانی پہاڑوں کی
بجائے گھر کے صحن ہی میں 90 فٹ نیچے اُبلنے کو بے چین ہے۔ورنہ یہ بھی آئی ایم ایف
کے سر پر مٹکے رکھ کر لایا جاتا۔ پھر اتنی شدید گرمی میں خاک اُٹھا اُٹھا سر پر
ڈالتے۔ بین الاقوامی پروازوں کے پائلٹ شہروں کے اُوپر سے گزرتے ہوئے آپس میں سر
گوشیاں کرتے کہ
ہڑپہ اور موہنجوڈھارو کی ہزاروں سال پرانی بستیوں کے ساتھ
انسان بھی دریافت ہوئے ہیں یہاں۔ کمال ہے۔ مشرف نے کسی لیکچر میں ذکر نہیں
کیا۔زرداری اکثر آتا ہے مگر زیادہ وقت ہنسنے میں رہتا ہے ۔نواز شریف گنے کا رس نچوڑنے والی مشینوں میں دلچسپی زیادہ
رکھتا ہے۔ خان صاحب پہاڑوں میں چھوٹے جہاز تاکتے رہتے ہیں۔ اسی لئے ہم تو بہت
اونچا اُڑاتے ہیں۔
بیچارہ کیپٹن ! بھولے بادشاہ یہ بھی نہیں جانتا میں نے ایک
کہانی اپنے آبا سے سنی ،آبا نے دادا سے ، داد نے آبا کے دادا سے، اور انہوں
نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا اچھا سمجھ گیاکہنا چاہ رہے ہیں"کم ٹو دی پوائنٹ"
ایک چرواہا پہاڑ پر بکریاں چرانے جاتا۔ ایک روز اسے شرارت کا خیال آیا۔
اس نے شور مچایا!
شیر آ گیا! شیر آگیا!
گاؤں والے پاؤں سر پر رکھ کر جو جہاں وہاں سے بھاگا ڈنڈے
سوٹے کلہاڑیاں لے کر۔
گاؤں والے جب وہاں پہنچے تو وہ چرواہا آرام سے زمین پر
بیٹھا نیرو کی طرح بانسری بجا رہا تھا۔
گاؤں والوں کے استفسار پر خوش ہو کر بولا ۔
مذاق کیا تھا۔گاؤں والے بڑ بڑ اتے پہاڑ اُتر آئے۔
دوسری بار شیر اچانک سے پہاڑ پر نمودار ہوا ۔
چرواہا چیخا چلایا !
شیر آ گیا!
شیر آگیا!
گاؤں والے خوشگپیاں کرتے رہے۔
چرواہا شام کو بکریوں کے خون سے بھرے کپڑوں میں لپٹا گاؤں
پہنچا ۔ایک جھوٹ کی سزا پا کر۔
یہ نہیں بتاؤں گا میرےاورمیرے آبا کے سر سےکتنے انقلاب کے نعرے گزرے۔
اب جتنا چاہو مدد کو پکارو چرواہے کی طرح!
کان پک چکے ہیں۔گرمی بڑھ چکی ۔کم از کم آم کے پکنے میں کوئی
شک نہیں ۔
تحریر ! محمودالحق
0 تبصرے:
Post a Comment