May 28, 2014

پہچان ِ انسان کا ا متحان

ہم پیدائش سے لے کر لحد تک سیکھنے سکھانے ، سننے سنانے ، منانے منوانےاورکھونے پانے کی کشمکش سے گزرتے ہیں۔کبھی چہرے کھل جاتے ہیں تو کبھی اُتر جاتے ہیں۔کبھی آنسو بہہ جاتے ہیں تو کبھی نکل جاتے ہیں۔ہم جان ہی نہیں پاتے ہم چاہتے کیا ہیں۔عارضی تسکین یا ابدی سکون؟
تعریف و تحسین لباس کی ہو یاحسن و جمال کی ،شان و شوکت کی ہو یا عنایاتِ خداوندی کی ۔۔۔رطوبتِ ہم آہنگی سوچ میں بہہ کر آنکھوں میں اُتر آتی ہے۔ جو ہمدردی کے لبادے اوڑھ کر مقامِ رفعت و عزت  پر ٹڈی دل حملہ آور بن جاتے ہیں۔جو وجود کی کھیتی اُجاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
زمانہ جاہلیت سے ہی انسان پہچان کے امتحان سے گزرنے پر مجبور ہوا۔آگ ، چاند ،تارے اور سورج سے ہوتے ہوئے تخیلاتی بت پرستی پر صدیوں تک رکا رہا۔ہر نئی اُمید کی کرن اسے اپنی منزل کا نشان نظر آئی۔جس کی اندھا دھند پیروی شروع کر دی گئی۔ کبھی زائچوں سے تو کبھی جنتریوں کے ہندسوں سےقسمت و تقدیر کو جاننے کی سعی کی جاتی رہی مگر حاصل نمرود و فرعون سے مختلف نہیں۔۔۔فتح کے نشہ میں سرشار سکندر یونانی بھی خالی ہاتھ ہی رہا۔ 
حالات و واقعات تو مختلف ہو سکتے ہیں۔۔۔چہرے  تبدیل ہو سکتے ہیں۔۔۔ مگربہکنا ، سنبھلنا آج بھی وہی پرانی روش پر ہے۔مقصدِ حیات سے ہٹانے والے مجبوریوں ،لا چاریوں ،ہمدردیوں ، محبتوں ، چاہتوں کے راگ آلاپتے  ۔۔۔اپنی محرومیوں کا رونا رو تے ۔۔۔نفس ِدرندگی کی تسکین  پر کمر بستہ دکھائی دیتے ہیں۔
جو آنکھیں ان چہروں کے پیچھے ہمدردی میں چھپے زہر فناءحقیقت کو دیکھ نہیں پاتیں۔۔۔۔تنہائی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔قسمت ان سے روٹھ جاتی  ہے۔ میَں کا خول انہیں کھلنے نہیں دیتا۔ روشنی سامنے پا کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔کیونکہ تعریف وتحسین ایسا سانپ ہے جو حقیقت شناسی کی سیڑھی چڑھنے نہیں دیتا۔
ہمدردی کے دیپ جلا کر روشنی کی طرف بلانے والے خود چھپکلیوں کی طرح  دیواروں سے چپکے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔
معصوم بھولے روشنیوں سے محبت کرنے والے روشنی ہی کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔اندھیروں سے بے خوف ہو جاتے ہیں۔جو انہیں کھینچ کر خود فریبی کی دلدل میں پھینک دیتے ہیں۔جو انہیں نکالنا چاہے تو خو ڈوبنے کے خدشے میں ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔
آج کی دنیا  نیٹ کی دنیا ہے جس میں ہم جتنے بھی با پردہ  کیوں نہ ہوں لفظ روح کو بے لباس کر دیتے ہیں۔سوچ و افکار کی آڑ  میں  چھپے آستین کے سانپ ڈسنے چلے آتے ہیں۔ چہروں کے شیدائی چہرے پیچھے، لفظ کے دیوانے لفظ کےپیچھے اورنفس کے بھکاری مجبوریوں کی صدا لگاتےمحبت کشکول  پھیلائے سوالی بنے پھرتےہیں۔
کمپیوٹر  وہ آئینہ ہے جس میں ہم دو آنکھوں سے یہ سوچ کر دیکھ رہے ہیں  کہ صرف  ہم ہی دیکھ رہے ہیں مگراسی کے دوسری طرف  ہزاروں آنکھوں سےہم دیکھے  بھی جا رہے ہوتے ہیں۔  وہ  اپنی سکرین پر جودیکھنا چاہتے ہیں صرف انہیں ہی تلاش کے بعد دیکھتے ہیں۔

2 تبصرے:

کائناتِ تخیل said...

وقت پر انسان کی پہچان ہی اصل امتحان ہے۔ جو ہمیں اپنی ذات کا علم عطا کرتا ہے۔

Anonymous said...

آج کی دنیا نیٹ کی دنیا ہے جس میں ہم جتنے بھی با پردہ کیوں نہ ہوں لفظ روح کو بے لباس کر دیتے ہیں
درست

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter