زندگی تیرے انجام سے بے خبر یونہی چلتے رہےجیسے ننگے پاؤں انگاروں پہ جلتے رہے۔ کبھی چاند کو اپنا سمجھتے رہے کبھی پھول سے محبت کرتے رہے۔رات کے پچھلے پہر ستاروں کی ٹمٹماہٹ سے سلگتے رہے۔چاندنی میں جسم و جاں سے اُلجھتے رہے۔حدت ِآفتاب سے تپتی ریت پر گھسٹتے رہے۔دُعا میں اُٹھے ہاتھوں کووصلِ بیتاب سمجھتے رہے۔اقرارِ زباں کو قرارِ جاں سمجھتے رہے۔ عشق ِامتحاں کو دلِ ناداں سمجھتے رہے۔ جوانی کی مستیاں حسن کی لن ترانیاں رہ گئی گھٹ کر ان میں اذیت کی سرگوشیاں۔زندگی کے میلوں میں کھو گئیں بچپنے کی معصومیت،چاہت کی پاکبازیاں،آنکھوں کا بھول پن ،کانوں کی سرخی اور رخساروں کی لالی۔
شجر تو کونپل سے کونپل بڑھتے رہےپھلوں پھولوں سے بھر کر پھیلتے رہے۔ جوانی بپھر کر بھی سمٹتی رہی۔اُنگلی چھونے پہ ہاتھ بھی کٹتے رہے۔ایک نظر پڑنے پر جوجان ہتھیلی پر لئے پھرتے رہے۔ نظر بدلنے پر جان جہاں سے بھی جانے میں مسکراتے رہے۔
زندگی کی عجب کہانی ہےدل پہ گزرے تو دیوانی ہے، درد میں ڈوبے تو آفتِ نا گہانی ہے۔
شجر تو کونپل سے کونپل بڑھتے رہےپھلوں پھولوں سے بھر کر پھیلتے رہے۔ جوانی بپھر کر بھی سمٹتی رہی۔اُنگلی چھونے پہ ہاتھ بھی کٹتے رہے۔ایک نظر پڑنے پر جوجان ہتھیلی پر لئے پھرتے رہے۔ نظر بدلنے پر جان جہاں سے بھی جانے میں مسکراتے رہے۔
زندگی کی عجب کہانی ہےدل پہ گزرے تو دیوانی ہے، درد میں ڈوبے تو آفتِ نا گہانی ہے۔
0 تبصرے:
Post a Comment