زندگی بھر ہم سینکڑوں دائرے اپنے ارد گرد بناتے ہیں۔کہیں رشتوں کے، کہیں تعلقات کےاور کہیں روٹی روزی کے چکر۔ان میں حسبِ ضرورت داخل ہوتے ہیں۔جب چاہا باہر نکل آتے ہیں۔اتنے مختصر اور قلیل مدتی دائرے ایک دوسرے میں ایسے پیوست ہوتے ہیں کہ دیکھنے میں ایک جگہ پر ہی جامد نظر آتے ہیں۔مگر جب انہیں الگ الگ کیا جائےتو پیاز کی پرتوں کی مانند اترتے چلے جاتے ہیں۔دیکھنے میں وہ دائرے ایک دوسرے میں ضم نظر آتے ہیں مگر گردش اپنے اپنے مدار میں کرتے ہیں۔
ہم جس کے قریب ہوتے ہیں وہی ہمیں بڑا نظر آتا ہے۔کنالوں پر محیط گھرسامنے کھڑی سو منزلہ عمارت کی آخری منزل سے دیکھنے پرایک نقطہ میں بدل جاتا ہے۔ آسمان پر چمکتے جگمگاتے ستارے آنکھوں کےقریب جلتے دئیے سے بھی معمولی دکھائی دیتے ہیں۔ وجود سے باہر کائنات کا آخری ستارہ اور وجود کے اندر سیل کا آخری جز ہمیں کم مائیگی کا احساس نہیں دلا پاتا۔کیونکہ اسے علم و معلومات کا شاخسانہ قرار دے دیا جاتا ہے۔اس خودکار نظام کو جانچنے پرکھنے کی جستجو علم کی کسوٹی پر پرکھی جاتی ہے۔لاکھوں تجربات پر مبنی کتب انبار انسان کی سوچ کو دنگ کرنے پر اکتفا کرتی ہے۔
دنیا میں آنکھ کھولنے والے پہلے انسان سے لیکر آنکھ بند کرنے والے آخری انسان تک وجود کے اندر اور باہر کے دائرے ایسے ہی رقصاں رہیں گے۔مگر احساسات و محسوسات کے دائرے انسانی کردار و افکار سے بنتے اور مٹتے رہیں گے۔سینکڑوں ہزاروں تجربات کے بعد یہ دائرے ہر انسان کے اندر خود بخود بنتے ہیں ۔ کچھ چھوٹے کچھ بہت بڑے۔جن میں داخل ہونا یا باہر نکلنا جوئے شیر لانے کے مترادف نہیں ہوتا۔یہ وہ حقیقت ہے جس کی عکاسی افسانوں ، ناولوں اور ڈراموں تک ہی محدود رہتی ہے۔ شائد اسی لئے انسان اپنے خیال سے ڈرامہ نگار ہوتا ہے اور اس میں افسانوی رنگ بھر دیتا ہے۔
وجود رویوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتا کیونکہ سالہاسال قربت میں رہ کر بھی محبت کے مفہوم سے نا بلد رہتا ہے۔زندگی صرف مانگنے یا پانے کا نام نہیں ہے۔ بانٹنا بھی نشہ کے خمار میں مبتلا کر دیتا ہے۔رویوں کی کانچ سے آئینے بنتے ہیں۔ جو ہمیں اپنے آپ میں معزز، معتبراور سچ کا عَلم تھماتے ہیں۔زندگی کے خارزار میدان میں مرتے مر جاتے ہیں مگر عَلم ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے۔ آئینے ٹوٹ جائیں تو عکس کرچیوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ پھر ایک نئے آئینہ کے سامنے جڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
افکار و خیالات کی بھٹی میں رویوں کو پکایا جاتا ہے۔ پھر انہیں شخصیت کے سانچے میں ڈھالا جاتا ہے۔ٹوٹنے جڑنے اور پگھلنے ڈھلنے کے عمل سے بار بار شخصیت کو ادھیڑا اور بُنا جاتا ہے۔کوئل کوے کے گھونسلے میں انڈے دیتی ہے۔مگر پھر بھی کوئل کے بچے کوے کی طرح کاں کاں نہیں کرتے بلکہ اپنی دلکش اور خوبصورت آواز میں کو کو کرتے ہیں۔ مگر انسان نیک فطرت پر جنم لینے کے باوجود برائی کی کاں کاں اختیار کر لیتا ہے۔
محمودالحق
2 تبصرے:
اچھا لکھا
زندگی صرف مانگنے یا پانے کا نام نہیں ہے۔ بانٹنا بھی نشہ کے خمار میں مبتلا کر دیتا ہے
بہت خوب
Post a Comment