Aug 13, 2010
بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر
جمہوریت سے مراد گلی محلوں اور گاؤں سے الیکشن جیت کر پارلیمنٹ میں کھلی چھٹی پا کر سیاہ و سفید کے مالک ہو جانا مراد نہیں ۔سیاسی باپ کے بوڑھے ہونے سے پہلے نوجوان بیٹے کو سیاسی گدی نشینی کے لئے تیار کیا جانا بھی نہیں ۔ بد ترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر اسے کہا گیا ہے کہ جس میں معاشرے کے عام افراد بلا خوف وخطر اپنی آزادی اظہار رائے کا حق رکھتے ہوں اور نمائندگی کے لئے وراثت کی بجائے قابلیت کا معیار اپنایا گیا ہو ۔
جمہوریت سے مراد ہے عوام کو اپنے میں سے نمائندگی کا حق ، آزادی رائے کا حق،کاروبار و جائیداد کے تحفظ کا حق،مذہبی آزادی کا حق،تحریر و تقریر کا حق،معاشی تحفظات کا حق،بنیادی تعلیم اور حفظان صحت کا حق،امارت و غربت سے قطع نظر مساوی بنیادوں پر قانون و انصاف کے حصول کا حق،معاشرتی نا انصافی اور سماجی غنڈہ گردی سے استحصال سے محفوظ رکھنے کا حق، ایک عام آدمی کے وہ تمام حقوق جو حکمرانوں سے لیکر قانون نافذ کرنے والے اداروں تک اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں سے لیکر آزادی صحافت میں لپٹی بعض کالی بھیڑوں سے عزت نفس کو محفوظ رکھنے کا حق بھی شامل ہیں ۔
جس جمہوریت کی آساس آئین پر ہو ۔وہی آئین معاشرے کے تمام مکاتب فکر اور افراد کو حقوق فراہم کرتا ہے ۔مگر بد قسمتی تو دیکھئے آئین کی پاسداری سے صرف پارلیمان ہی اپنے لئے حقوق کا مطالبہ رکھتے ہیں ۔
جن حکمرانوں پر عوام کا اعتبار اٹھ چکا ہو اس سے بڑی بد قسمتی کیا ہو گی ۔وزیراعظم سیلاب فنڈ میں شرمناک حد تک عطیات کا اکٹھا ہونا اس بات کی دلالت ہے کہ عوام جمہوری بھائی بندوں کی ایمانداری پر شکوک کا شکار ہے ۔آخر کار جمہوری وزیراعظم کا میڈیا پر عوام سے مخاطب ہو کر یہ یقین دلانا کہ ایک ایک پائی ایمانداری سے سیلاب زدگان تک پہنچائی جائے گی ۔ اور اس کا حساب بھی دیا جائے گا ۔ ویب سائیٹ پہ جا کر چیک کیا جا سکے گا ۔
پاکستانی عوام نے مصیبت کی ہر گھڑی میں جمہوری حکومت ہو یا آمریت دل کھول کر امداد کی ہے ۔مگر آج وہ مایوس ہیں ان کے کردار و گفتار سے ۔جمہوریت کے یہ چمپئن پارٹی ٹکٹوں پر کروڑوں روپے خرچ کر کے یہاں تک پہنچے ہیں ۔ اور جو اسمبلیوں میں نہیں پہنچے وہ بھی اتنے ہی داؤ پر لگا چکے ہیں ۔ اگر وہی لوگ اپنے الیکشن پر پولنگ کے روز دیگوں پر خرچ آنے والی رقم کا آدھا بھی سیلاب فنڈ میں دے دیتے تو حکمرانوں کو سبکی نہ ہوتی ۔
ہمارے ہاں ایک عام رویہ یہ پایا جاتا ہے کہ قومی سطح پر امداد کی بجائے عید قربان پر کھالیں اکٹھا کرنے والوں کی طرح تمام سیاسی جماعتوں کے الگ الگ شامیانے ہر شہر میں عوام سے کھلے دل سے امداد کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔مگر ان تمام سیاسی جماعتوں کے اربوں روپے خرچ کر کے الیکشن لڑنے والوں سے قوم کو کیا توقع رکھنی چاہئے ۔ جو صرف قوم سے لوٹا پیسہ قوم پر لگانے کو جائز سمجھتے ہیں ۔اگر صدر صاحب ہی مانچسٹر میں پچاس لاکھ کا اعلان کرنے کی بجائے اس دورہ پر سرکاری فنڈ سے کروڑوں روپے خرچ کرنے کی بجائے دورہ منسوخ کر دیتے اور یہی رقم سیلاب زدگان کے فنڈ میں دے دیتے تو آج وزیراعظم صاحب کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ ایک ایک پائی کا حساب دیا جائے گا ۔
عوام سے صرف قربانی مانگی جاتی ہے ۔سیلاب نے جو تباہی پھیلائی ہے ۔ بچ جانے والوں کے پاس اب صرف کھالوں کے علاوہ کچھ نہیں بچا ۔جو ان کے کسی کام کی نہیں ۔ہماری حکومتوں کو جانوروں کی شکل میں صرف کھالیں چاہئے اور انسانوں کی شکل میں بکرے ۔جو صرف چھری دیکھانے سے میں میں کرنے لگیں ۔
جن معاشروں میں تعلیم کا فقدان ہوتا ہے ۔وہاں چند پڑھے لکھے اندھوں میں کانا راجہ کے مصداق کامیابی کے زینہ پر جلد چڑھ جاتے ہیں ۔مجمع اکٹھا کرنے کے لئے تماشا سے بڑا مداری ہوتا ہے ۔کیونکہ تماشا دیکھا نہیں جاتا دیکھایا جاتا ہے ۔تماشا چاہے ماچس کی ڈبیا کا ہو ۔ مگر زبان سے منظر باندھنے والا اسے بڑھکا دیتا ہے ۔
برکتوں کا مہینہ ماہ رمضان کا آغاز ہو چکا ہے ۔مکمل سادگی اختیار کریں ۔عید کے اہتما م میں ہزاروں روپیہ خرچ کرکے امیروں کی تجوریاں بھرنے کی بجائے مصیبت اور مشکل کی اس گھڑی میں اپنے بھائیوں کی مدد کریں ۔سیاسی اور سیاست کرنے والی مذہبی جماعتوں کو جانچنے کا سب کا اپنا پیمانہ ہے ۔ جن اداروں کا ماضی بے داغ ہے اور خدمت خلق میں جن کا نام کی بجائے کام بڑا ہے ۔ انہی کے سپرد اپنی امدادی امانت کریں ۔ جو پچھلی کارکردگی کے فوٹو سیشن سے بیوقوف بنانے کی کوشش بھی نہیں کرتے ۔
وزیراعظم کا سیلاب میں پھنسے لوگوں کے درمیان جانا اچھا فعل ہے مگر ایک ایک فرد کو کیمرے کی آنکھ کے سامنے تھیلا تھمانا شرمناک فعل ہے ۔ آخر میں تو صرف یہی بات رہ جاتی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اجڑے باغاں دے گالڑ پٹواری
موضوعات
آزادی,
پاکستان,
زندگی,
سفینہء محمود,
سیاست,
سیلاب، تباہی,
صحت,
معاشرہ,
نثری مضامین
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
1 تبصرے:
میری طرف سے تمام اہل وطن کو جشن آزادی کی بھرپور مبارکباد
شعر عرض کیا ہے
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر نہ اُترے
وہ فصلِ حکمران جس سےملک کو اندیشۂ زوال نہ ہو
Post a Comment