تخلیق کائنات کا حسن اُس کی کھوج جستجو اور نا مکمل تحقیق کے باوجود پوری دلکشی اور رعنائیوں کے ساتھ موجزن ہے۔جدید سائنس نیوٹن سے لے کر آئین سٹائن تک تحقیق و مفروضوں کی بنیاد پر اصل حقیقت جاننے سے ابھی اتنے ہی دور ہیں جتنے ایک نظام شمسی دوسری گلیکسی کے نظام شمسی سے فاصلے پر ہے۔ ان دیکھی مخفی طاقتیں نہایت وزنی مادہ وجود کو مخصوص دائرے میں محو گردش رکھتی ہیں۔جانداروں کے افزائش کے مراحل نہایت رازداری سے چھپ کر طے پاتے ہیں۔ جیسے ایک ننھا بیج زیر زمین ایک مخصوص فاصلے پر رہ کر ہی پروان چڑھتا ہے۔جہاں سے اسے حدت و ہوا ، روشنی و پانی موصول ہوتی ہے۔غرض یہ کہ شاخیں ہوں یا اعضائ جڑ کی بدولت ہی حرکت میں رہتے ہیں۔الگ ہوتے ہی سوکھ کر کانٹا ہو جاتے ہیں اور آخر کار اپنا وجود کھو دیتے ہیں۔
انسان تخلیق کائنات کا سب سے خوبصورت جزو ہے۔وگرنہ اتنے بڑے نظام کائنات کے ہوتے ہوئے ایک خودسر اور متکبر تخلیق کی کیا حیثیت۔ بچپن سے بلوغت تک پہنچنے کی ایک مقررہ مدت ہے۔ اس سے پہلے افزائش نسل انسانی بھی ممکن نہیں۔
اندھیرا بے سبب ہوتا ہے، روشنی کا منبع ہوتا ہے۔ کہیں نہ کہیں ایک روشن آلاؤ دہک رہا ہوتا ہے۔ جو فاصلوں کو مقید رکھتا ہے۔اندھیرے قریب آنے والے ہر وجود کو فنا کر دیتے ہیں۔جیسا بلیک ہول کے قریب جانے والے صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔
اللہ تبارک تعالی کے فرمان حدود و قیود میں رہتے ہوئے حقوق و فرائض کی گردش رفتار کا اہتمام کرتے ہیں۔ایک زرہ سے لے کر ایک جہان تک پابندی اوقات و رفتار کی حدود وقیود میں رہتے ہیں۔مگر انسان اپنی سرشت میں ستاروں پہ کمند ڈالنے کا متمنی رہتا ہے۔لہذا پیغمبروں کے علاوہ مقدس کتابیں بھی رہنمائی کے لئے اُتاری جاتی رہیں۔قرآن کی صورت میں ان سب کو یکجا و مکمل کر دیا گیا۔پھر اس کے بعد کسی نبی خدا کی بھی ضرورت باقی نہیں رہی۔کائنات کو جاننے کا عمل دنیا کے قائم رہنے تک جاری رہے گا۔مگر خالق کائنات کی تلاش اور جاننے کی صورت نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دنیا میں رحمت بن کر آنے سے ختم ہو گئی۔ اب صرف خالق کائنات کو اپنا ماننا اور خود کو اس کے حوالے کر دینا باقی ہے۔ تاکہ اس کی رحمتوں کا ایک جہان گردش ثمرات سے ہمیں منور کر دے۔ جاندار اور بے جان نظام حیات و نظام کائنات کی طرح نظام رحمت سے بنی نوع انسان اپنے نظام وجود کی تکمیل کر پائے۔
دنیاوی خواہشات سے لبریز نفس انسانی وجود میں بلیک ہول کی طرح کام کرتا ہے۔ ہدایت روشنی کی حدود وقیود سے آزادی پانے والے نیک خیال نفس کے اس بلیک ہول میں فنا ہوتے جاتے ہیں۔اپنے وجود کے اندر اس بلیک ہول کو پہچاننا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ اور ہدایت کی روشنی ہی اس کا مقدر ہونا چاہیئے۔اپنے اپنے دائرے میں حرکت کرتے ہوئے دوسروں کی حدود کا خیال رکھتے ہوئے دن رات اور گرم سرد کا وقت معین پر انتظار کرنا ، خواہشوں آرزؤں کی عارضی قبولیت سے اندھیروں میں غرق ہونے سے بہتر ہے کہ ہدایت کی روشنی کے گرد اپنے سفر کو جاری رکھا جائے۔جو ایک وقت کے بعد اپنے اختتام کو پہنچے گی ، نہ کہ وقت سے پہلے اپنے انجام کو۔
خالق کائنات رب زوالجلال کو ایسے یاد کیا جائے کہ اس کے احکامات کی پاسداری اور تکمیل جزئیات کے ساتھ مکمل بندگی میں پرو دی جائے۔تو ایسی کئی رحمتیں رضا بن کر ہر مشکل گھڑی میں مدد کو پہنچ جاتی ہیں۔زندگی ایک تہائی عمر حکم کی بجاآوری کے بعد اس راستے پر گامزن ہو جائے۔جہاں نفس کے بلیک ہول میں غرق ہونے کی بجائے ہدایت کی روشنی روح کو منور کر دے۔ تو سمجھنا کافی ہے کہ اصل راستہ کی پہچان اور آگاہی منزل مقصود کی قربتوں کی ہمراہی ہے۔
تحریر ! محمودالحق
3 تبصرے:
درست فرمایا ہےآپ نے ۔ میں اپنی زندگی کی سات دہائیاں کچھ جان لینے کی کھوج میں گذار کر صرف اتنا ہی معلوم کر پایا ہوں کہ پوری دنیا مین موجود سائنس کا علم کُل کے مقابلے میں اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتا جتنا ایک مہین چیونٹی کا وزن پورے کرّہ ارض کے وزن کے مقابلے میں ہے
قلبِ سلیم ہی کامیابی ہے اور یہی دل کا سکون ہے جس کو مل جائے وہی خوش نصیب ہے
بجا فرمایا آپ نے آج کے دور میں کامیابی بھی ہے خوش قسمتی بھی مگر سکون نہیں
Post a Comment