Jan 31, 2010
واہ میرے شیر جوانوں
سوچا نہ تھا ۔آج تک تو انجن اور چولہوں کی محبوب جان تھیں ۔اب ہماری جان پر بن گئیں ہیں ۔پٹرول پمپ مالکان گاہکوں کے انتظار میں خوش آمدیدی کلمات کے بینر لگاتے سستے اور اچھے مرغن کھانوں کے ۔حالات نے کروٹ لے لی گلی محلے میں ہوٹلوں کی طرح سی این جی کھل گئے۔ بینر تو اب بھی ہیں مگر ڈسکاؤنٹ کے۔ کسی نے پرسنٹ میں رعائت کا اعلان طبل بجایا تو کسی نے روپے ہی لکھ دئے ۔جتنی بچت ایک ماہ میں ہوتی ہے ۔ اس کی اب شائد دو کلو چینی نہ مل سکتی ہو ۔مگر بچت کا قطرہ قطرہ سے ملے گا تو خرچہ کا دریا بنے گا۔ بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ چادر سے زیادہ پاؤں نہ پھیلاؤ ۔ لیکن اب صورتحال ایسی ہے کہ پاؤں چادر کے قریب ہی نہ لاؤ ۔ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ بات تو میں نے لطیفوں سے شروع کی تھی مگر جانے انجانے میں سنجیدہ موضوع اختیار کر گئی ۔ حالانکہ میرا آپ کو اداس کرنے کا ارادہ نہیں تھا ۔اتنے مسائل ہیں کہ ہنسی مذاق کرنا بھی اب ایک مذاق لگتا ہے ۔جیسے کسی شاعر نے کیا خوب کہا "تجھے اٹھکیلیاں سوجی ہم بیزار بیٹھے ہیں "۔
چلیں ایک گھر کی طرف آپ کو لے کر چلتا ہوں جہاں ایک نئی ملازمہ اپنی نئی مالکن سے گفتگو فرما رہی ہے ۔بی بی جی ! آپ کا گھر بہت خستہ بدبو دار تھا ۔ مگر چند دنوں میں میں نے صفائی ستھرائی سے خوشبودار کر دیا ۔دانائی سے بھری بوڑھی مالکن یوں گویا ہوئی کہ اے کم عقل کمال تیرا نہیں اس بدبو کا ہے جس نے تجھے بھی اپنا اسیر کر لیا ہے ۔
کافی عرصہ پہلے سننے کا اتفاق ہوا تھا لیکن آج ایک واقعے نے اسے پھر سے تازہ کر دیا ۔ٹی وی کے ایک پروگرام میں اینکرکاشف عباسی کے ساتھ شیخ رشید ، احسن اقبال اور قمرالزمان کائرہ دوستانہ ماحول میں طنز و تنقید کے ساتھ ساتھ الزام تراشیوں میں لطیف استعاروں کا استعمال کر رہے تھے ۔اور میں احمق عوام کا نمائندہ شاطرسیاسی جماعتوں کے نمائندگان کی گفتگو سے محفوظ ہو رہا تھا ۔ان کے درمیان ہونے والے چٹکلے وقت گزاری میں ممدو معاون ہو رہے تھے ۔احسن اقبال بہت جوش و خروش کا اظہار کر رہا تھا اور مخالفین پر اصول و قوائد کی تلقین و نصیحت پر خاص زور لگا رہا تھا ۔کائرہ کا شیخ رشید کو مخاطب کرکے احسن کا ہاتھ تھام کر کہنا تھا کہ جب کوئی نیا نیا مسلمان ہوتا ہے تو وہ نماز روزے کا پابند پیدائشی مسلمان سے زیادہ ہوتا ہے ۔احسن ابھی نیا نیا سیاست میں آیا ہے ۔ اس لئے اصول و قائدے کی بات کر رہا ہے کچھ عرصہ گزر جائےٹھیک ہو جائے گا ۔ اس بات پر تینوں قوم کے شیر جوانوں نے ایک قہقہہ بلند کیا ۔ تو مجھے یہ خیال آیا سب ہی ایک تھالی کے چٹے وٹے ہیں ۔جو ٹی وی پر سر عام آ کر قوم کی بے حسی پر قہقہہے بکھیر کر چلے جاتے ہیں ۔اس امید کے ساتھ کہ اگلا دن پھر انہی کے نام سے طلوع ہوگا اور ہوتا بھی وہی ہے ۔ چینل بدلو پھر کہیں اور بیٹھے قوم پر لطیف انداز گفتگو سے طنز کر کے چلے جاتے ہیں ۔اور ہر الزام کا ایک ہی جواب ہے سب کے پاس عوام نے منتخب کیا ہے ۔ ووٹ دیا ہے کوئی ڈھٹائی کا سرٹیفیکیٹ تو نہیں دے دیا عوام نے۔بار بار جتلایا جاتا ہے ۔ بار بار غلطی دھرائی جاتی ہے ۔
آنے کا راستہ تو سب کو نظر آتا ہے مگر جانے کا نہیں جیسے حکومت میں آنے کا جانے کا نہیں ۔ ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف سے قرضہ آتا تو نظر آتا ہے جاتا کہاں ہے، کاغذ ہی گم جاتا ہے ۔بینک زکواۃ کاٹ لیتے ہیں جاتا کہاں ہے ۔ اخباروں میں بھی چھپ چکا ، جہاز بھر کر حکمران عمرہ کی سعادت سے ثواب حاصل کرچکے۔غریب و لاچار کس کسمپرسی سے زندگی کے دن گزارتا ہے ۔ کبھی باسٹھ سالوں میں ارباب اختیار نے ضرورت محسوس نہیں کی ۔
آج بھی ایسا محسوس ہوتا ہے تقسیم ہندوستان کے وقت مہاجرین کی ٹرین سٹیشن پر آ کر رکتی ہے ۔ اور بے یارومددگار لٹے پھٹے کارواں آس وامید سے ٹرین پر سوار ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔مگر ٹرین چھوٹ جاتی ہے اور ان میں سے چند لوگ قافلے کو پیچھے چھوڑ کر خود اس ٹرین میں سوار ہو جاتے ہیں ۔قافلے بڑھتے جارہے ہیں ۔ ٹرین آتی ہیں ۔ ان میں سے چند طاقتور اور زورآوروں کو ساتھ سوار کر کے لے جاتی ہے ۔پیچھے رہ جاتے ہیں کمزور غریب لاچار ۔ پھر نئی ٹرین کی آس لگا کر کہ شائد اس بار ہم بھی اس میں سوار ہو سکیں ۔پلیٹ فارم پر پڑے پڑے کئی نسلوں سے کئی ٹرینیں چھوٹ گئیں ۔ مسافروں کے قافلے اب رہائشی ہیں وہیں کے ۔زیادہ تر نے ٹرین کے آنے جانے کو اہمیت دینا چھوڑ دیا ۔ کچھ آج بھی امید لگائے ہیں کہ سب مسافر اس نئے سفر پر ضرور روانہ ہوں گے ۔ اور چند ہر بار قافلےکو چھوڑ کر ٹرین پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بعض پہلی کوشش میں تو بعض دوسری یا تیسری کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ اب تو مسافر اتنے ہو چکے ہیں کہ ایک ٹرین میں پورے نہ آ سکیں ۔ اگر پہلی ٹرین سے ہی انہیں ساتھ لے کر چلا جاتا تو آج سب ہی منزل تک پہنچ چکے ہوتے ۔پلیٹ فارم پر آس و امید کی تصویر بنے نظر نہ آتے ۔
تحریر : محمودالحق
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 تبصرے:
Post a Comment