Jan 23, 2010
جینا اسی کا نام ہے
آج پھر میں ایک عجیب کشمکش کا شکار ہوں۔ پرندےغول در غول مشرق کی طرف محو پرواز ہیں۔ شور مچاتے دھیرے دھیرے اپنی اپنی منزل مراد کی طرف گامزن۔ ہر نئی صبح کی طرح خالی چونچ اور پنجوں کے ساتھ۔ جیسے کل واپس لوٹے تھے خالی چونچ اور پنجوں کے ساتھ ۔ نہ ان کے آنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کس منزل کے مسافر ہیں اور نہ ہی ان کے جانے سے ۔زاد سفر کبھی بھی ان کے پاس نہیں ہوتا۔ تو پھر یہ کس امید و آس پہ روز اپنے اپنے گھونسلوں میں ننھے بچوں کو اکیلا چھوڑ کر کس روزی کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ کون انہیں روز یہ تسلی دیتا ہے کہ کل پھر آؤ گے تو اپنا کاروبار زندگی پھر وہیں سے شروع کرنا جہاں ایک روز پہلے چھوڑ کر گئے تھے۔ ہر روز ایک نیا پڑاؤ ،نئی جستجو انہی پرانے راستوں پر انہیں لے کر آتی جاتی ہے۔ موسم سرد ہو یا گرم، بہار ہو یا خزاں بارش ہو یا آندھی مایوسی تو ہوتی ہو گی انہیں بھی۔ اگر سارا دن بارش نہ رکی تو صبح کام پر کیسے جائیں گے۔ خود تو شائد بھوک برداشت کر لیں۔ مگر ان ننھے بچوں کا خیال انہیں ضرور تڑپاتا ہو گا کہ کہیں بارش میں نہ بھیگ جائیں۔ ایک کو تو ان پر اپنے پروں کا سائبان رکھنا ہو گا۔بارش میں بھیگ کر بخار نمونیہ نہ ہو جائے۔ دوسرے کو آج اکیلے ہی محنت بڑھ کر کرنی ہو گی۔ پہلے سے زیادہ وقت تلاش رزق میں صرف کرنا ہو گا۔ کیونکہ آج کسان بھی کھیت میں بیج ڈالنے شائد نہ آئے ۔کھلی گلیوں بازاروں میں بھی کھانے پینے کی دوکانیں نہ سجیں ۔ بہت مشکل میں زندگانی کو پاتے ہوں گے۔ مگر اس کے باوجود شام کو واپس لوٹتے ہوئے پھر بھی خوش ہیں چہچہا رہے ہیں۔ گنگنا رہے ہیں۔ کیا آج بھی گزشتہ روز کی طرح پر باش ہیں۔ نہیں آج تو ان کے لئے برا دن ہونا چاہیے۔ اتنے کم ملنے پر بھی ان کی خوشیوں میں فرق کیوں نہیں آیا۔ شائد ان کی خواہشیں دم توڑ چکی ہیں۔ آگے بڑھنا نہیں چاہتے۔ روز اتنا لمبا سفر کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔انہی شہروں کے گلی کوچوں میں کہیں بسیرا کیوں نہیں کر لیتے۔ آنے جانے میں وقت کا ضیائع بھی نہیں ہو گا ۔بچے بھی قریب رہیں گے اور جلد ہی اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے۔مگر نہیں وہ ایسا نہیں کرسکتے ان کھلے درختوں پر ان کے ساتھی سنگی ساتھ رہتے ہیں۔ جو دکھ سکھ کے ساتھی ہیں۔ اپنوں سے جدائی انہیں قبول نہیں۔ سب چھوٹے بڑے قریب قریب ہی بستے ہیں۔ بھوکے بے دھڑک سو جاتے ہیں۔ مگر ایک دوسرے کو نوچتے نہیں۔ کھانا ملنے پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔مگر اپنی بھوک اور ضرورت سے زیادہ کی طمع نہیں رکھتے۔ ایک دن کے لئے جو چاہیے اسی پہ قناعت کر لیتے ہیں۔ نفرت اور دشمنی کے نام سے نا آشنا ہیں۔ ایک دوسرے کے آشیانوں پر قبضہ نہیں جماتے۔ شائد اس لئے کہ سب نہتے ہیں اور کوئی بھی ظلم کرنے والے کا ساتھ نہیں دیتا۔ کمزور اکیلا ہی ظلم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جاتا ہے ۔مگر صرف انسان کو ہی دیکھ کر کیوں دبک جاتا ہے۔ انسانی عظمت کی داستانیں اس تک کیسے پہنچی ۔جنگ و جدل کی کہانیاں کون بیان کر گیا ۔انہیں کہ آج یہ انسان ہی کو اپنا دشمن ماننے لگا ہے۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ ہم کل کیا تھے آج کیا ہیں۔ ہمارے جہاز، سڑکیں، پل ،اونچی اونچی عمارتیں اور بڑی بڑی گاڑیاں گھوڑوں سے بھی زیادہ تیز رفتار ہیں ۔اس زمین کا زرہ زرہ تسخیر ہو چکا۔ اب تو کائنات باقی ہے۔ یہی تو فرق ہے اپنی جڑوں کے ساتھ جڑے رہنے والے کب ترقی کر پاتے ہیں۔ دیکھو آج انسان کس نہج پر کھڑا ہے۔ مال و دولت کے ساتھ ساتھ عزت وقار رتبہ جو انسان کو میسر ہے وہ کسی اورکو نہیں ۔ کیا ہوا اگرتھوڑا بہت خون بہا دیا گیا۔ رشتوں کو پامالی کی زنجیروں میں باندھ دیا گیا۔ ایک ایسی خوشی کے لئے جس کا دروازہ دکھوں کی جھیل میں کھلتا ہے ۔بغض و نفرت کی کشتیوں میں بیٹھ کرترقی کے کنارہ تک کا سارا سفر طے کرتے ہیں۔
شائد جینا اسی نام ہے ؟
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 تبصرے:
Post a Comment