Dec 24, 2009

سمت پرواز کیا ہے

تحریر : محمودالحق

آج ہم جس طرف بھی نظرڈالیں بحث و مباحث کا بازارگرم نظرآتا ہے ۔ملکی سیاست سے لیکر چینی کی عدم دستیابی تک ہر ضروری اور غیر ضروری موضوع پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے ۔اپنی کہی بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور آواز کو دوسروں سے بہت اونچا رکھنے سے کیا جا رہا ہے ۔ایک کے بعد ایک لطیفہ منظر عام پہ آرہا ہے ۔قوم میں مایوسی کا بڑھنا اضطراب کا موجب بن رہا ہے۔ خاندان میں مردوں اور گھروں میں خواتین کا کردار ہمارے معاشرے میں کیا اہمیت رکھتا ہے ۔ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔مگر آہستہ آہستہ کچھ ان دیکھے انداز میں تبدیلی کا عمل معاشرے میں کسی زہر کی طرح سرایت کرتا جا رہا ہے۔اور جسے ہم غیر اہم قرار دے کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرتے جا رہے ہیں۔ مگر بلی جدید ٹیکنالوجی یعنی انٹر نیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی صورت اختیار کئے دھاک لگائے بیٹھی ہے۔اور اس انتظار میں ہے ،کہ اجتماعیت کی موجودگی میں شائد وہ اپنا کام نہ کر سکے۔ مگر انفرادیت کی وبا میں اسے اپنا کام دکھانے میں خاص مشکل پیش نہیں آئے گی ۔اور ایک کے بعد ایک اس کا لقمہ خواہش بنتا جا رہا ہے۔اور بچنے والے سہمے ہوئے پنجرے کے اندر بھی غیر محفوط محسوس کر رہے ہیں ۔پنجرہ مضبوط کرنے سے شائد جان تو بچ جائے۔ مگر خوف اور بے یقینی کی کیفیت سے چھٹکارہ پانا تبھی ممکن ہے جب بلی تھیلے میں بند کر کے دور پہنچا دی جائے۔ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے سے مسئلہ کا حل ممکن نظر نہیں آتا ۔کسی کا چہرہ سرخ ہو تو اپنا تھپڑوں سے سرخ نہیں کیا جا تا ۔جیسے آج ہمارے ٹی وی پروگرام کچھ ایسا ہی منظر پیش کر رہے ہیں ۔ کسی ریڑھی فروش کی طرح مکھیاں اڑاتے ہوئے اونچی آواز میں گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا طریقہ اپنائے ہوئے ہیں ۔ہر نئی ایجاد و اختراح کو اندھا دھند تقلید کی سولی پر چڑھا دیتے ہیں ۔یہ سوچے سمجھے بغیر کہ جن لوگوں کو اپنے باسی پروگرام کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔ وہ اخلاقی ، سماجی ، تمدنی ، اخلاقی اور مذہبی لحاظ سے اس بیماری کو جھیلنے کی ہمت رکھتے بھی ہیں یا کہ اس کے سائیڈ افیکٹ سے نئی بیماری کا شکار ہو جائیں۔برداشت ، صبر ، اخوت ، رواداری،محبت اور یگانگت جیسے قوی افکار بھی سبب مرض ،کمزوری اور نقاہت کا شکار ہیں۔ ہر گلی کی نکڑ سیاست کا اکھاڑا معلوم ہوتی ہے۔ ایک دوسرے پر اچھل اچھل کر الزام لگانے میں شاہی وفاداری کا تمغہ سجانے میں حق بجانب سمجھتے ہیں۔ جس انگلی کو اُٹھانا مغربی معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ہمارے ہاں بندوق کی نالی کی طرح اکڑا کر رکھا جاتا ہے۔ اور اسی سے شخصیت پر حملہ کے لئے تلوار کا کام لیا جاتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ہم کون ہیں ۔کن کی نیابت اسلاف سنبھالے ہوئے ہیں۔ہماری طاقت کس میں ہے ، ہماری کمزوری کیا ہے۔طاقت کے استعمال سے جو قوم نہ جھک سکی ۔ اب وہ اپنے کمزور پہلوؤں سے صیاد کے چنگل میں آتی جارہی ہے۔ پشاور سے لیکر کراچی تک ٹیلیفون کی لائینوں کے ساتھ اب کیبل نیٹ ورک کےذریعے سے وہی کلچر پروان چڑھایا جارہا ۔ جس میں تقسیم ہند سے پہلےہمارے بچوں کو جب ہندوانہ رسومات کا پابند کرنے کی کوشش کی گئی ۔تو پورا مسلم معاشرہ ہی سراپا احتجاج بن گیا تھا۔ مگر کیا ہوا کہ آج گھر گھر میں ، ہر گلی کی نکڑ میں وہی تہذیب و ثقافت کا پرچار ہے۔ اور ہم ہیں کہ اپس میں اختلافات کی جنگ جیتنے میں سر دھڑ کی بازی لگانے کی کوشش میں ہیں۔مذہب ، سیاست ، معاشرت بری طرح سے متاثر نظر آتی ہے۔ہم تقسیم ہو چکے ہیں ۔ برادریوں ذاتوں میں ، سیاسی جماعتوں میں اور رہی سہی کسر فرقہ بندیوں نے پوری کردی۔
آج مجھے ایک کہاوت میں اس بوڑھے کبوتر کا اپنے ساتھ دوسرے قید پرندوں کو دیا گیا مشورہ یاد آتا ہے ۔کہ جب انہوں نے باہمی اتفاق سے ایک ساتھ پروں کو پھیلایا اور جال سمیت اُڑ گئے۔

0 تبصرے:

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter