Dec 20, 2009
سیاسی محبت کے اسیر
سیاسیات کا مضمون جب کالج میں پڑھنے کا ارادہ کیا۔ تو یہ اندازہ نہیں تھا کہ آنے والے وقت میں ملکی سیاست میں اس کی افادیت سے آگاہی کا نہ ہونا ہی بہتر ہے ۔کیونکہ اس مضمون کی نسبت کا ادراک مجھے تحریک و تاریخ پاکستان کے آئینے میں دیکھنے سے ہوا ۔ قومیت کے جس جزبے کو پرونے کا عمل محمد بن قاسم کے دیبل سے ملتان تک کی فتوحات ،پھر محمود غزنوی کی سومنات پر یلغار اور قطب الدین ایبک کا ہندوستان کا باقائدہ حکمران بننے سے جوشروع ہوا ۔مسلمان حکمرانوں کی عروج و زوال کی داستانوں نے تاریخ کے دھارے میں مسلم معاشرے کی سنگ بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ مذہب کی عملداری میں روح رواں مشائخ و اہل اللہ نے اسلام کے سنہری اور لافانی اصولوں کی احسن انداز میں تبلیغ کی اور معاشرے کی تزکیہ نفس و تصفیہ باطن کی تعلیم وتلقین فرمائی ۔ لیکن مسلم انداز حکمرانی اور مسلم معاشرتی انداز فکر میں ایک واضح خلیج حائل رہی ۔ اکبر اعظم جیسا طاقتور بادشاہ بھی اپنی سلطنت کی وسعت و ہر دلعزیزی کے لئے کبھی مان سنگھ جیسے سپہ سالاروں کو اپنا داہنہ ہاتھ بناتا۔ تو کبھی دین الہی کی شکل میں ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھنے میں تامل نہ کرتا ۔
جہانگیر کی انارکلی دیوار میں چنوا دی جاتی تو کبھی اقتدار نور جہاں کی محبت کا اسیر ہو جاتا ۔شاہ جہان باغات کے شوق جنوں میں محبت کے تاج محل کی لازوال داستان رقم کر جاتا ۔ تو اورنگزیب عالمگیر پچیس سال دکن میں مرہٹوں کی سرکوبی میں گزار گیا ۔
اقتدار کا نشہ جب سر چڑھنا شروع ہوا تو وزیر مشیر بھی مسند اقتدار کی دوڑ میں شامل ہو گئے ۔ رعایا کو سکہ رائج الوقت پر ان کے من پسند بادشاہوں کا ہی گرویدہ رہنے دیا گیا ۔مگر اُکھاڑ پچھاڑ کی سیاست کو انہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا ۔ایک کے بعد ایک کو اپنی نالائقی کی سزا کا مزا چکھنا نصیب ہوا ۔بادشاہ رنگ رلیوں میں مست ہوتے گئے ۔ تو نادر شاہ درانی اورا حمد شاہ ابدالی کبھی حملہ آور بن کر، تو کبھی مدد کو آئے۔ مگر نہ تو بادشاہ ہی اپنے پاؤں جما سکے اور نہ ہی معاشرے کو انحطاط کا شکار ہونے سے بچا سکے ۔اور آخر کار بہادر شاہ ظفر " دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں " کہتے ہوئے تاریخ کی کتابوں میں دفن ہو گئے۔
سیاسی شعبدہ بازیوں سے بھری پڑی تاریخ سے سبق سیکھنے کا عمل کا پہیہ جام ہو گیا ۔ تو سر سید احمد خان جیسا متنازعہ ہونے کے باوجود بھی تعلیمی میدان میں کارہائے نمایاں سر انجام دیتا رہا ۔ایک نئی سوچ کو مسلم معاشرے کی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے میں ہمیشہ کوشاں رہا ۔ ایک انسان تبدیلی کے اس عمل میں ہر رخ اور زاویہ سے عمل پیرا ہونے سے قاصر ہوتا ہے ۔ جب تک کہ دوسرے بھی اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری اس انداز میں کریں کہ انحطاط پزیر معاشرہ ہر میدان میں کوشش عمل سے خود اعتمادی سے اپنے پاؤں پر دوبارہ سے کھڑا ہونے کے قابل ہو ۔جب کہ دو بڑی قوتیں انگریز اور ہندو مد مقابل ہوں ۔ جو سیاسی اور مذہبی افکار میں مسلمانوں کی بیخ کنی میں پیش پیش ہوں ۔ایسے میں مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے سیاسی، مذہبی قائدین نے قابل قدر خدمات انجام دیں ۔
عوام میں انفرادی سوچ صدیاں بھی پنپتی رہے تو تبدیلی کا ہونا بعید از قیاس ہے جب تک کہ اجتماعیت کے دھارے میں قوم نہ ڈھل سکے۔
معاشرتی ، معاشی ، سیاسی ، تمدنی اور مذہبی لحاظ سے مسلمانوں کو پسماندہ کرنے اور پیچھے دھکیلنے پر کمر بستہ ہندو قوم 1857 کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ لڑ رہی تھی۔مگر آقا کی تبدیلی سے موقع پرستی اور مفاد پرستی کے بت دوبارہ تیار ہو گئے ۔ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی سیاسی بساط بچھانے والی گورا حکومت نے ایک ہزار برس تک اقلیتی قوم کی حکومتی اجارہ داری کے خلاف اکثریتی قوم کو موقع فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ یہاں تک کہ ایک انگریز اے۔ او۔ ہیوم نے 1885 میں ہندوستانیوں کی بھلائی کی آڑ میں ہندوؤں کو نوازنے کی ایک اور کوشش انڈین نیشنل کانگریس کے قیام سے کی۔
مسلم قائدین تیس سال بعد بھی محتاط رویہ اختیار کرنے پر مجبور تھے۔سیاسی سرگرمیوں سے پہلے انہیں صرف تعلیمی تحریک سے سماجی ، معاشرتی اور معاشی میدانِ عمل میں فکری و نظریاتی سوچ کو پروان چڑھانے کی ضرورت تھی۔ غیر مسلم اندازِ حکمرانی سے واسطہ پہلی بار پڑا تھا ۔صدیوں میں آقاؤں کی تبدیلی نے مسلم معاشرت پر مذہبی انحطاط کے علاوہ معاشی ، معاشرتی اور تمدنی لحاظ سے کوئی قابل ذکر اثرات مرتب نہیں کئےتھے۔ یہی وجہ ہے مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جیسے جید علماء مسلمانوں کو مذہبی انتشار و بیگانگی سے بچانے کی تحریکوں کے روح رواں تھے۔
اور یہ پہلی بار تھا کہ مسلمانوں کو ان تمام محاذوں پر نبرد آزما ہونا پڑ رہا تھا ۔ اور جنگ آزادی میں ناکامی سے انگریزوں کی انتقامی کاروائیوں سے محفوظ رہنے کے لئے یہ ثابت کرنے کی ضرورت محسوس کر رہے تھے ۔کہ وہ حکومت کے مخالف نہیں ہیں۔ کانگرسی ہندوؤں کی ریشہ دوانیوں کے بیس سال بعد اور جنگ آزادی کے تقریبا پچاس سال بعد بھی مسلمانوں کے اندر حقوق کی جنگ لڑنے کی بجائے ، مفاہمتی پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت کو مدِنظر رکھا گیا۔ لیکن 1905 میں تقسیم بنگال سے مشرقی بنگال کےمسلمانوں کو ہونے والے فائدے کی ہندوؤں کی مخالفت نےمسلمانوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک الگ سیاسی جماعت کی تشکیل پر آمادہ کیا اور 1906میں ڈھاکہ کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہوئی۔
اس کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس کے درمیان اپنی اپنی قوموں کی حقوق کے تحفظ کی ترجمانی میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دونوں جماعتوں نے 1916 میں لکھنو پیکٹ کے نام سے معاہدہ کیا جو آئندہ حکومتی شراکت داری میں ہندوستانیوں کو زیادہ سے زیادہ حصہ دلانے کی جدوجہد کا ایک حصہ تھی۔ جس نے ہندو ذہنیت کو فائدہ حاصل کرنے میں مسلمانوں کی مدد حاصل کرنے پر آمادہ کیا ۔ اور وقت نے یہ ثابت کیا کہ ہندو نے صرف اس وقت مسلمانوں کے ساتھ معاہدات کرنے کو ترجیح دی۔ جب اسے انگریزی حکومت سے معاملات طے کرنے میں ایک بڑی مسلم قوم کی مدد کی مجبوری تھی ۔ اور فائدہ حاصل ہوتے ہی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کی ان کی فطرتی عادت کارفرما رہی ۔ یہی وجہ تھی کہ قائداعظم محمد علی جناح نے ہندو مسلم مسئلے کے حل کے لیے مارچ 1929ء کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں نہرو رپورٹ کے جواب میں پیش کیے جو کہ تحریک پاکستان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نےحقیقی معنوں میں مسلمانانِ ہند کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے مفادات و حقوق کے حقائق کو مدلل انداز میں پیش کر کے برطانوی حکومت کو یہ بات باور کروانے کی کوشش کی کہ کانگرس محض ہندوؤں کی اکثریت ہی کی فلاح و بہبود کے بارے تحفظات رکھتی ہے جبکہ ہندوستان کی اقلیتیں خصوصاً مسلمانوں کو ان کے حقوق و مفادات کے حوالے سے کسی خاطر میں ہی نہیں لاتی۔
مگر اس سے پہلے 1927 میں مسلم لیگ کو پہلی بار دو حصوں میں تقسیم کا عمل شروع ہوا ۔ جب ایک گروپ سرمحمد شفیع اور دوسرا قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں آگیا۔مگر مسلم لیگ کی تقسیم سے ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ کو کوئی زد نہیں پہنچی ۔ کیونکہ مسلم قوم اپنے ہمدرد رہنما اور قائد کو پہچان چکی تھی ۔
گول میز کانفرس میں کانگریس کے اس مخالفانہ اور غیر مصالحانہ رویے کے باوجود مسلمانوں نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ مجریہ 1935ء کے تحت 1937 میں منعقد صوبائی انتخابات میں مسلمانوں کے لئے مختص 486 نشستوں میں مسلم لیگ کو صرف 102 پر کامیابی حاصل ہوئی ۔ گیارہ میں سے آٹھ صوبوں میں کانگرسی وزارتوں نے اقتدار کے نشہ میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ۔ اور ظلم و ستم کی انتہا کی ۔ کانگرسی حکومت میں مسلمانوں نے انگریز حکومت سے بھی بد تر حالات کا سامنا کیا۔اور دوسری جنگ عظیم کے آغاز پر ڈھائی سالہ کانگرسی وزارتوں کے استعفے سے مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا ۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے اس دوران ملک بھر کے دورہ کئے ۔ اور آخر کار 23 مارچ 1940 کو منٹو پارک لاہور میں علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر، قرار داد پاکستان کی شکل میں تاریخی قرارداد پاس ہوئی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی حکومت پر دباؤ بڑھ گیا کہ وہ ہندوستان کے سیاسی مسائل کا حل تلاش کرے۔ اس صورتِ حال میں برطانوی حکومت نے عوامی رجحانات کا پتہ چلانے کی خاطر عام انتخابات کا اعلان کیا۔ دسمبر 1945 ء میں مرکزی اسمبلی اور جنوری 1946 ء میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کروانے کا فیصلہ ہوا۔ تمام جماعتوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔
مرکزی اسمبلی میں مسلم سیٹوں کی تعداد 30تھی جو کہ مسلم لیگ نے تمام تر مخالف محاذکے باوجود تمام سیٹیں جیت لیں ۔
اور صوبائی اسمبلیوں میں مسلم سیٹوں کی مختص تعداد 495 تھی ۔مسلم لیگ نے 434 سیٹیں جیتیں۔ یہی وہ موقع تھا جب مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کی گئی اور محمد علی جناح قائد۔
کانگرسی وزارتوں کے مظالم نے پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے اکٹھا کردیا تھا۔وہی مسلم لیگ 1937 کے صوبائی انتخابات میں تقریبا 20% نشستیں جیت پائی تھی اور اب سارے ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت بن کر ابھر کر سامنے آئی۔اور خاص طور پر مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کا کردار قابل تعریف ہے جنہیں یہ بھی معلوم تھا کہ مسلم لیگ جس پاکستان کا مطالبہ کر رہی ہے وہ خود اس ملک کا حصہ نہیں ہو ں گے۔مگر انہوں نے اپنا وزن مسلم لیگ کے پلڑے میں ڈالا ۔اور ہندوستان کی نمائندہ جماعت کہلانے والی کانگریس قائد اعظم اور مسلم لیگ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی۔اور برطانوی حکومت کو انہیں نظر انداز کرنا ممکن نہ رہا۔
بالاخر14 اگست 1947 کا دن دنیا کی تاریخ میں روشن باب بن گیا ۔جب ایک قوم نے نظریہ کی بنیاد پر اپنے لئے ایک الگ وطن کا حصول ممکن بنایا۔
آج پاکستان میں کبھی صوبائی کارڈ استعمال کیا جاتا ہے تو کبھی چھوٹے بڑے بھائیوں کے درمیان پانی کی تقسیم پر اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں ۔سوچنے والی بات ہے اگر مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان صوبائی تعصب کی بنا پر مسلم لیگ کی بجائے کانگرسی مسلمانوں کو ووٹ ڈال دیتے تو آج ہم کہاں کھڑے ہوتے ؟
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 تبصرے:
Post a Comment