Jan 30, 2010

قانون فطرت

آج کوئی خاص بات ضرور ہے۔ ہر ایک تیز قدموں کے ساتھ کھلے میدان کی طرف بھاگا چلا جا رہا ہے ۔آپس میں چہ مگوئیاں کر رہے ہیں ۔ کہ ایسی بھی کیا آفت آ گئی ۔ بادشاہ کا بلاوا تھا کس کی مجال کہ حکم سے روگردانی کرسکے۔کافی عرصہ سے دانا اور بزرگ اس اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کر رہے تھے ۔ آخر کار بادشاہ اور اسکے رفقاء کار کھلے میدان میں دربار کے انعقاد پرمجبور ہوئے ۔ رعایا کو اب اپنے بڑھتے مسائل پر پریشانی کا سامنا تھا ۔ مجلس عاملہ کے لئے اونچا پنڈال نہیں بنایا گیا تھا ۔ بلکہ ایک نسبتا اونچی چٹان پر تمام طاقت کے سرچشمے براجمان تھے ۔ہر قبیلہ سے ایک بڑی تعداد میں شرکت کی گئی تھی ۔شور اس قدر تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔آخر کار بادشاہ سلامت کی آمد کے ساتھ ہی میدان میں خاموشی نے بھی ڈیرہ ڈال لیا ۔ بادشاہ نے میدان میں پھیلے ہجوم پر ایک نظر ڈالی اور گویا ہوا کہ اپنا مدعا بیان کیا جائے ۔کچھ دیر تمام آپس میں صلاح مشورہ کرتے رہے کہ کسے اس معاملہ کو بیان کرنے کے لئے چنا جائے ۔ بالآخر ایک بوڑھا بارہ سنگھا آگے بڑھا اور اپنا مدعا بیان کرناشروع کیا ۔ جناب ہم ان جنگلوں میں صدیوں سے آباد ہیں ۔ہم سب قانون فطرت کے اندر رہتے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں ۔مگر کبھی بھی کسی کو آپس میں یا بادشاہ سلامت آپ سے شکایت نہیں ہوئی ۔ جناب آپ سب طاقتور ، زور آور ہیں ۔ ہم آ پ کے مقابلے میں کمزور و ناتواں ہیں ۔ قانون فطرت میں رہتے ہوئے ہم موت سے بچنے کے لئے آپ کے سامنے بھاگتے ہیں ۔ اور آپ زندگی کو پانے کے لئے ہمارے شکار پر مامور ہیں ۔زندگی میں ایک پل ہی ایسا ہوتا ہے جب ہمیں موت کے چنگل سے بچنا ہوتا ہے۔اور آپ زندگی جینے کے لئے بچوں اور لاغروں کی بجائے صحت مند و توانا پر اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہیں ۔سبز و ہریالے میدان ہوں یا پانی کے گھاٹ ، آپ سے زندگی جینے کی بھیک نہیں مانگتے ۔ اپنے زور سے موت سے چنگل سے بچتے ہیں ۔تالابوں میں مگر مچھ ہماری تاک میں رہتے ہیں ۔لیکن ان سب کے باوجود قانون فطرت کو قبول کر چکے ہیں ۔کیونکہ ہمارا شکار کرنے سے ہماری تعداد میں کمی نہیں ہوتی اور شکار کرنے سے آپ کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوتا ۔صدیوں سے ہمارے اور آپ کے درمیان تعداد کا جو تناسب ہے وہ کبھی بھی نہیں بگڑا ۔ یہی قانون فطرت ہے۔یہ معاملہ صرف آپ کا اور ہمارا نہیں ہے بلکہ اس جنگل میں رہنے والے ہر ایک باسی اسی قانون فطرت پر زندہ رہتے ہیں ۔ کمزور شکار روز ہوتے ہیں مگر وہ ختم نہیں ہوتے ۔ شکار کرنے والے ناپید ہو جاتے ہیں ۔جیسے ڈائنوسار جوکبھی دہشت کی علامت تھے مگر آج ہڈیوں کے ڈھانچے باقی بچے ہیں ۔ لیکن آج صورتحال مختلف ہے ۔ہمیں زندہ رہنے کے لئے جس ماحول کی ضرورت ہے ۔ وہ ختم ہوتی جارہی ہے۔پہلے پہل تو انسانی آبادی کے قریب قریب درختوں کو کاٹ کر ایندھن بنایا جاتا تھا ۔ اب تو انتہا یہ ہے کہ نت نئے ڈیزائن اور خوبصورتی کی تلاش میں ہمارے خوبصورت جنگل تخت مشق بنے ہوئے ہیں ۔اگر بات یہیں تک ہوتی تو ہم صبر کر لیتے کہ ہمارے جینے کے لئے بہت کچھ باقی ہے ۔مگر اب تو انہوں نے اپنے گھروں کو چکاچوند روشن کرنے کے لئے دریاؤں پر بھی بند باندھ دئیے ہیں ۔پانی کی پیاس بجھانے کے لئے دور دور بھٹکنا پڑتا ہے ۔ہم سبھی چوپائے اور پرندے قانون فطرت پر زندہ رہنے والے آج پابند زمانہ کر دئیے گئے ہیں ۔لیکن صرف اتنا نہیں بات تو اور بھی آگے بڑھ چکی ہے ۔ہمارے بہت سے ساتھی قیدی بن چکے ہیں ۔ہمیں موت سے ڈر نہیں لگتا مگر قید ہمیں موت سے بھی بدتر ہے ۔ ہمارے مخبر جاسوس پرندے جو خبریں لاتے ہیں ۔وہ دل لرزا دینے والی ہیں ۔کیسے انہیں تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں قید رکھا جاتا ہے ۔ گرمی پسند کرنے والے سرد علاقوں میں اور سرد ہواؤں کے باسی گرم علاقوں میں قید رکھے جاتے ہیں ۔بلند پرواز رکھنے والے پرندے شکایت کرتے ہیں کہ اونچی پرواز میں اب تو دم گھٹتا ہے ۔ اتنی دھواں بھری گرد آلود ہوائیں ہیں ۔ کہ زیادہ دیر تک وہاں پرواز ممکن نہیں رہی ۔بیماریاں ایسی ایسی ہیں کہ شکار کی موت سے شائد بچ جائیں مگر ان سے بچنا ممکن نہیں رہا ۔بادشاہ سلامت ہم سبھی پیدا تو قانون فطرت پر ہوتے ہیں مگر انسان ہم سے ایک قدم آگے ہے ۔کیونکہ اس قانون فطرت میں رخنہ ڈالنے والا شیطان ان کا ہمعصر ہے ۔جو انہیں ترغیبات و خواہشات کا تابع رکھنے میں اپنی ساری توانائیاں خرچ کرتا ہے ۔خود تو وہ نت نئے ہتھیاروں سے لیس ہو کر خود کی تباہی کا سبب بنتا ہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمارے شکار سے تسکین و تسفی پا تا ہے ۔ ایسی ایسی ایجادات کر چکا ہے ۔کہ ہم جیسے شکاری کے جال پھیلانے کو اپنے کانوں اور آنکھوں سے بھانپ لیتے تھے ۔مگر اب اتنے فاصلے سے ہم پر وار کرتے ہیں کہ ہمیں کانوں کان خبر نہیں ہوتی ۔بادشاہ سلامت ہم جس مشکل کا شکار ہیں ۔جینے کے لالے پڑے ہیں ہر طرف سے گھر چکے ہیں ۔نئی نسل کو کچھ بھی تو بتانے کے قابل نہیں رہے ۔فطرت پر زندگی گزارنے کی بجائے جان بچانے کے لئے آگے سے آگے بڑھتے جارہے ہیں ۔جہاں جینا تھوڑا بہت آسان ہو جائے۔اور سانسوں کو چند مزید لمحوں کی مہلت مل جائے۔ہم جانتے ہیں بادشاہ سلامت کہ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ان سب باتوں کا آپ سے کوئی تعلق نہیں ۔کیونکہ آپ ہمارے خون سے سیر ہو جاتے ہیں ۔ تو پھر آپ کو ان کے بتانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔کیونکہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو آنے والی صدیوں میں ہم کمزور وں کی ہڈیاں تو زمین میں ہی دفن رہیں گی ۔مگر آپ طاقتوروں کی ہڈیاں ڈائنوسار کی طرح جوڑ کر عجائب گھروں میں سجائی جائیں گی ۔ اور کتابوں میں آپ کی دہشت اور شکار کی مہارت کا اندازہ آپ کے دانتوں اور ناخنوں کی طاقت سے لگایا جائے گا ۔ہم گوشہ گمنامی میں رہیں گے مگر آپ سکرین پر زندگی کی علامت بن کر ابھریں گے ۔زندگی میں تو ہم سکون سے شائد جی نہ سکیں مگر موت کے بعد آرام ہی آرام ہو گا ۔ اور آپ موت کے بعد بھی ہڈیوں سے جڑ کر بننے اور ٹوٹنے کے عمل جراحی سے گزرتے رہیں گے ۔زمانہ شائد ہمیں بھول جائے مگر آپ کو بھولنے نہیں دے گا ۔

تیری پرواز سے بہت اگے ہیں تیرے مقام
جس کی تجھے تلاش اس سے اگے تیرے انعام
پلٹتے نہیں وہ اپنی منزل سے پہلے
اورٹھہرتے بھی نہیں وہ بعد از شام
ذوق اشتیاق تو ہے ان کا شب بھر کے لیے
کیا خوب نبھاتے ہیں وہ حکم بنا کسی امام
نہ آرزو ہے نہ خواہش حسد و جلن سے پاک
دیتے ہیں اشراف کو محبت کا پیغام
ایک سے ہوں ہزار نہ مجمع نہ ہجوم
سمجھو تو اصل میں ہیں وہ اقوام
سلب آزادی کے خوف سے ہیں دبکے ہوئے
اشراف کو گمان ہے یہ ان کا احترام
کیسی کیسی خوبیوں کے مالک مختار
پھر بھی نہیں ان میں ناز و اندام
فطرت ثانیہ میں وہ ہیں مکمل آزاد
پھر بھی ہیں ان پر بیوفائی کے الزام


تحریر و اشعار : محمودالحق

2 تبصرے:

افتخار اجمل بھوپال said...

عصرِ حاضر کے لوگ بہت زیاد پڑھ لکھ گئے ہیں انہیں قدرت کے اصل ماخذ سے زیادہ مخلوق کی عقل پر بھروسہ ہے ۔ نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں

Mahmood ul Haq said...

سحیح فرمایا آپ نے عقل مخلوق خالق سے جدائی کا سبب ہے ۔ تعلیم سے شعور پیدا ہو تو بھلائی اگر غرور پیدا ہو تو تباہی

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter