روزانہ ہی ایک طرح کی اپنی زندگی جینے کی عادت نے دن میں روشنی اور رات میں تاریکی کی چادر اوڑھ رکھی ہے ۔ اب تو آنکھیں بھی وہی منظر دیکھنا پسند کرتی ہیں جو انہیں بار بار دیکھایا جاتا ہے ۔ جوں جوں نظارہ وسیع ہوتا جارہا ہے آنکھیں سکڑتی اور روشنی کم پڑتی جارہی ہے ۔ زندگی کے بیتے دنوں کی یاد نے ستانا شروع کر دیا ہے ۔ جب قہقہے ایسے گونجا کرتے کہ اگر کہیں سے رونے کی آواز آ جاتی تو سب لوگ اپنی توجہ صرف اسی طرف کر لیتے اور قہقہے آنسوؤں کے دامن گیر ہو جاتے اور پل بھر میں اپنی آغوش میں سمیٹ کر مسکرانے پر مجبور کر دیتے ۔ خوشیاں اتنا اپنا پن چھوڑ جاتیں کہ رونے کے لئے بھی کوئی بڑی وجہ چاہیئے ہوتی ۔ نہ جانے کیوں زندگی ایسا کھیل کھیل جاتی ہے ۔ پتھروں جیسے حوصلہ رکھنے والے فولاد کی بھاری ضربوں سے توڑنے جاتے ہیں ۔ آنسو جن کے قریب سے نہ گزرے ہوں وہ ان میں بہہ جاتے ہیں۔ اللہ تعالی پر توکل کرتے کرتے انسانوں سے شکوے بھی ختم ہو جاتے ہیں ۔ مگرعقل کی معراج پانے والے دلوں پر کشت و خون بہا دیتے ہیں ۔ وہ انسان جو زندگی میں اس منزل کے مسافر ہیں جس کا انجام اسی فانی دنیا میں بھگت کر جانے والے ہیں ۔ مگر پھر بھی انہیں راستوں پر گامزن ہیں جہاں ان کے قہقہے چیخوں کی مانند ہیں ۔ اپنے جائزحق کو بھی پانے کے لئے نفرت کی ایسی آگ بڑھکاتے ہیں ۔ کہ آنکھیں حسد و نفرت کی جلتی آگ کے آنسوؤں سے قہر آلود ہو جاتی ہیں ۔ اور بجھتی تبھی ہے جب وہ حوس و حرص کے پانی سےسیراب ہو ۔ اپنی ذاتی خواہشوں کی تکمیل میں ہر رشتہ دھوکہ کی سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے ۔ پھر بھی توقع بدلے میں اچھے ہی کی جاتی ہے ۔ عفو و درگزر کر دینا ایسا فعل ہے کہ جسے اللہ اور اسکے رسول محبوب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پسند فرمایا ہے ۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیا جائے ۔ جو بھٹکے ہوئے ہیں ان کے لئے اللہ تعالی سے ہدایت کی دعا کی جانی چاہیئے ۔ معاف کر دینا چاہیئے جن سے دل دکھے ہوں کڑوی کسیلی باتوں سے ، اختلافات سے ، اعتراضات سے ، نظریات سے ، حسد سے ، جلن سے ۔ مگر وہ جو فتنہ و فساد پھیلانے کا موجب ہو جائیں ۔ بھائی کو بھائی سے جھوٹ اور مکاری سے آپس میں لڑوانے کی سازش کریں ۔ ہمدردی کی اوٹ سے ذاتی مفاد کی خواہش تکمیل میں خاندانوں میں ، بھائیوں میں جھوٹ اور بہتان طرازی سے زہر بھر دیں ۔ وہ نہ تو اس دنیا میں سرخرو ہیں اور نہ ہی اُس جہاں میں ۔ اپنی جھولیاں جس انگار سے بھرنے کے لئے اپنی زبان پر انگار رکھتے ہیں اسی سے جلتے ہیں ۔ جو اللہ اور اسکے رسول محبوب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان زبان سے نہیں دل سے رکھتے ہوں ان کے تمام معاملات راضی بالرضا ہوتے ہیں ۔ توکل سے تحمل و برد باری کی زمین تیار ہوتی ہے ۔ عفو و درگزر کی فصل بوئی جاتی ہے ۔ اور رحمتوں کے پھلوں سے جھولیاں بھری جاتی ہیں ۔
حاسد حسد سے جل کر خاک ہوتا ہے
صابر صبر کے پھل سے پاک ہوتا ہے
کینہ و بغض تو کرتے ہیں رزق کا شکار
راضی بالرضا سے توکل بیباک ہوتا ہے
باطل تو ہے با سبب بد اعمال
بردباری تو حق کا ادراک ہوتا ہے
قلب کو یاد آنچ میں گرماؤ تو اچھا ہے
آتش کا حد سے بڑھنا تشویشناک ہوتا ہے
چاہ طلبوں کو تو چاہیے منزل الماس
فقہاء کا تو فقر ہی پوشاک ہوتا ہے
کھولے جو بند گرہ تلاش راز کو
بہتان طرازی کا جرم بڑا انجام المناک ہوتا ہے
تحریر و اشعار : محمودالحق
0 تبصرے:
Post a Comment