Mar 19, 2011

تیرا دل تو ہےصنم آشنا

کافی دنوں کے بعد آج مزاج کچھ ہشاش بشاش ہے ۔ اب امید پیدا ہو ئی کہ عنقریب خوش باش بھی ہو گا ۔ پر باش تو روز ہی رہتا ہے ۔ا مارت کا ابھی دور شروع نہیں ہوا مگر بیماری ء امراء کا آغاز ہو چکا ہے ۔کیونکہ بہت سی ڈشیں مجھے پسند نہیں اور جو پسند ہیں وہ ڈاکٹر کو پسند نہیں ۔ بچی کھچی اب معدہ پسند نہیں کرتا ۔
ایک زمانہ تھا تندور سے روٹی منگواتے تو پانی بھری دال چنے منہ کا ذائقہ بدلنے کو منہ چڑانے کو آتی ۔ یہ اتنی خوشی بھرپور کھانا تناول فرمانے کی خوشی میں نہیں ہے ۔ بلکہ سکون جان سے آئی ہے ۔ خوش آمدی کلمات کہتے کہتے چہرے پر تو خوشی امڈ آتی ہے مگر دل کی ویرانی ہے کہ بڑھتی جا تی ہے ۔روکنا چاہتے ہیں مگر خود میں جھانکنے سے ایک آواز دستک پہ دستک دیتی ہے کہ
تیرا دل تو ہے صنم آشنا
صنم کا تصور اتنا بڑ اہے کہ بہت چھوٹا ہو جاتا ہوں ۔جو مجھ سے دور تھے میں آج ان کے قریب نہیں ۔
عجب کھیل ہے اس زندگی کے کھیل کا ۔کھیلتے ہیں اور کھلاڑی بھی نہیں ۔جہاں ہار جیت کا ٹاس ہے کھیل کے آغاز کا نہیں ۔بہت سی باتیں ایک ساتھ کرنے سے بوجھل نہ ہو جائیں ۔ جو کہنا چاہتا ہوں درحقیقت انہیں سمجھنا چاہتا ہوں ۔ کہ محبوب کے ہاتھ میں دل دیا تو عاشق کہلائے ۔ دل میں ہی محبوب بسائے تو دیوانہ کیوں کہلائے ۔
عجب زندگی کی رت ہے بے چین دن تو پرسکون رات ہے ۔ جاگنے میں اذیت تو سونے میں عافیت ہے ۔زخم بھی اپنے کانٹے بھی اپنے ۔مرہم بھی اپنا مسیحائی بھی اپنی ۔ غیر صرف وہ جو ہرجائی ہے ۔ کس توسط سے بلاؤں کہ آؤ تمہیں محبوب اپنے سے ملاؤں ۔ چاہت اس کی گمنام ہے ۔زندگی ہی جس کا انعام ہے ۔
ڈھونڈتا انہیں جو اپنی تلاش جستجو میں ۔
عشق کہنے کا ،محبت جوانی کی ، سوز نگر میں تصویر بشر کا حسن جمال ۔
خیال حسن کی پزیرائی ، دلکشی بھی اور رعنائی ، ڈھونڈنا اپنے لئے ،پانا تسکین وفا ، کھونا ملال و آہ ۔
وہ وقت بھی آئے گا جو یہ سمجھائے گا ۔ راستے خود سے ہیں جدا ۔ تلاش اختیار میں نہیں ۔اختیار کی تلاش ہے ۔
زندگی کو نہ یوں پڑھا ہوتا ۔ خواہشوں سے نہ جھگڑا ہوتا ۔آرزو میں لپٹا کفن لمس احساس میں نہ ڈوبا ہوتا ۔ تو ہزاروں خواہشوں پہ نہ اتنا دم نکلا ہوتا ۔

2 تبصرے:

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

بھائی صاحب!
اس تحریر کو پڑھنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ کا معدہ واقعی بد ہضمی کا شکار ہے۔ ورنہ پیچ در پیچ اتنی پیچیداہ تحریر واللہ بندہ سمجھنے کے چکر میں پیچاں پیچ ہوجائے۔

ایک پتے کی بات بتا رہا ہوں سب محرومیوں ، قلب کی افسانوی وارداتوں ۔ کو جھٹک کر ارد گرد نظر دوڑائیں جو آپ کے ساتھ بیتی یا آپ محسوس کرتے ہیں بیتی جبکہ وہ درحقیقت نہیں بیتی۔ اسے جھٹک کر دیکھیں کس قدر لوگ اسے وائے تمنائے و یاس و حسرت کے مر ض میں مبتلاء ہیں۔

گھر سے باہر رہا کریں۔ اور صبح دم سیر کو عادت بنائیں۔ طبعیت میں تبدیلی آئے گی۔ خوشی انسان کے اندر سے پھوٹھتی ہے اور اس کے لئیے مثبت سوچ اور لائمحہ عمل ارادتاَ اپنانا پڑتا ہے۔ ورنہ آپ ہوئے کہ میر کوئی لوٹ کر بھی نہیں پوچھتا کہ اس دنیا میں کون آیا تھا۔ کون گیا۔ اور کیوں۔

Mahmood ul Haq said...

جاوید گوندل صاحب بہت خوب تبصرہ ہے آپ کا . کہ میں بد ہظمی کا شکار ہوں . گھر سے باہر کاروباری اتنی مصروفیت ہے اب یہ شدید خواہش ہے کہ گھر زیادہ وقت گزاروں . میں ایک مطمعن ، خوش اخلاق ، خوش مزاج بھرپور زندگی جینے والا انسان ہوں . میری موجودگی میں محفل کشت زعفران ہوتی ہے . میں نے زندگی سے بہت سیکھا ہے .
جو میں لکھتا ہوں پڑھنے والا اسے میری کیفیت تصور کرتا ہے . حالانکہ میرے ارد گرد جو ہو رہا ہے اسے الفاظ کے سانچے میں ڈاھتا ہوں . میری تحریر ایک بے وفا کے نام کو ہی دیکھ لیں پڑھنے والا میری کہانی سمجھ لیتا ہے حالانکہ ایک اردو فورم پر محبت کی کہانی کے انجام نے مجھے لکھنے پر مجبور کیا .
میری مجبوری صرف یہ ہے کہ میں اپنے ارد گرد سے لاتعلقی کی زندگی نہیں گزراتا . خوشی و غم کے احساسات سے اپنے آپ کو الگ نہیں کر پاتا .
کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں بھی اختلافات کی اس بھٹی کا ایندھن بن جاؤں جو آج بلاگستان اور اردو فورمز کی دنیا میں پھیلی ہوئی ہے . مجھے اس نفرت میں اپنا حصہ نہیں ڈالنا . میں صرف محبت کا پیغام دیتا ہوں . جسے آپ کا یوں کہنا ہے پیچ در پیچ اتنی پیچیداہ تحریر واللہ بندہ سمجھنے کے چکر میں پیچاں پیچ ہوجائے۔ اتنا ذہن پر زور مت دیا کریں . جو نہ سمجھ آئے اسے چھوڑ دیا . ٹینشن نہیں لینے کا .

سدا خوش رہیں

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter