Dec 16, 2013

انشااللہ

بڑے بڑے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں جب تک کہ اس میں اللہ تبارک تعالی کی چاہ شامل نہ ہو جائے۔ تاریخ شاہد ہے مٹھی بھر لوگوں کی جماعت ایک کثیر فوج کے مدمقابل کھڑی ہو گئی۔ اس امید کے ساتھ کہ انہیں کامیابی نصیب ہو اگر ان کا اللہ چاہے تو۔
تو اللہ تبارک تعالی نے ان کے بھروسہ اور اعتماد کو پزیرائی بخشی اور وہ کامیابی سے سرخرو ہوئے۔ کہانیاں کامیابیوں کی زبان زد عام رہتی ہیں۔ قیاس وہم و افسوس کا شکار ہوتے ہیں۔
باطن کو ظاہر سے کمزور سمجھنے والے باطن کی اصل طاقت سے آگاہ نہیں ہوتے۔ ظاہر نمود و نمائش سے مزین ہوتا ہے۔ باطن مخفی قوتوں سے آراستہ۔آنکھوں کو وہی دکھایا جاتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتی ہیں۔ کانوں کو وہی سنایا جاتا ہے جو وہ سننا چاہتے ہیں۔ بہلانے پھسلانے کے نئے نئے انداز ترنم آبشار کی لگنِ دھن رکھتے ہیں۔
سورج کے گرد طواف کرتی زمین فاصلوں کے ماپنے سے حقیقت شناسی کا سبق دھراتی ہے۔ جس کی حدوں سے باہر نکل کر ہر شے بے وزن ہو جاتی ہے۔ ہوا میں اُڑتے پرندے رائٹ برادرز کو زمین سے اُٹھنے میں تحریک کا سبب ہیں۔ تو نیوٹن کو سیب زمین پر گرنے سے۔ بادل اپنے وقت پر گرج چمک کر برس جاتے ہیں۔ نفع و نقصان کا تخمینہ لگانا انسان کے جمع و تفریق کے فارمولہ کے تحت ہوتا ہے۔ زیر زمین رہنے والے کیڑے مکوڑے جڑی بوٹیوں کی افزائش سے تقویت پاتے ہیں اور ان سے پرندے زندگی۔ ہر بالی سے چوپائے صحت و تندرستی پاتے ہیں تو درندے ان کے خون سے۔
انسانی معاشرے میں بے حسی ، بے مروتی، خیر و شر کی تمیز کا نہ ہونا، سچ و جھوٹ میں فرق نہ کرنا، حرام و حلال میں تمیز نہ کرنا ، تحریص و ترغیب کی تحریک کا موجب ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک گناہ زندگی بھر کے پچھتاوے سے بھی دھلنے میں ناکام رہتا ہے۔
لینے اور دینے والےعہد و پیمان کی بجائے ضابطہ اخلاق کے بندھن میں بندھے ہوتے ہیں۔ قربانی دینے والے، ایثار کرنے والے دوسروں کی نظر میں ہمیشہ سر بلند نہیں ہوتے۔ جب تک کہ اللہ تبارک تعالی کی رحمتیں ان پر نفع کی صورت میں آشکار نہ ہوں  جو دن کی روشنی کی طرح عیاں ہوتے ہیں۔ منزل تک جلد پہنچنے کا ارادہ کرنے والے اور کسی مجبوری سے بیچ راستے سے ہی واپس پلٹ کر سفر پر نہ جانے والے اسی جہاز یا گاڑی کے حادثہ کے شکار ہونے کی روح فرسا خبر کو ایک بدقسمتی اور دوسرے خوش قسمتی سے تعبیر کرتے ہیں۔
تیز ہواؤں کے نتیجے میں گرنے والے پتے بد قسمت نہیں ہوتے اور نہ ہی درختوں پر رہنے والے خوش قسمت۔ یہ ایک خودکار سسٹم ہے جس کے وہ تابع ہیں۔ پانی ،روشی اور ہوا لے کر پروان چڑھنے والے پتے ٹہنیوں و تنوں کی عمر نہیں پاتے۔ بار بار جنم لیتے ہیں بار بار ختم ہوتے ہیں۔ جس دن مٹی جڑ سے رشتہ توڑ لیتی ہے پھر جنم کے سلسلے رک جاتے ہیں۔ جب تک زمین ہے جنم ہوتے رہیں گے ۔ جب کائنات نے زمین کو چھوڑ دیا نئے جنم کا سلسلہ ختم ہو جائیگا۔
روشنی پانی  ہوا سے زندگی پانے والا ایک پتہ،  روشنی  پانی  ہوا سے زندہ رہنے والے ایک انسان سے کیونکر عظیم ہو سکتا ہے۔ جب کہ دونوں جنم لینے اور ختم ہونے کی فطرت پر ہیں۔ عظیم وہ ہے جو عظمت پر کامل یقین رکھتا ہے۔ وہ عظمت جو اسے وسیلہ سے ملی۔ جس میں مرتبہ حسنِ اخلاق کو حاصل تھا۔ احترام صداقت اور امانت داری سے تھا۔ قدرومنزلت نام و نسب کی بجائے شرافت و دیانتداری سے تھی۔ بشر تو سبھی تھے مگر عظمت کا مینار کوئی کوئی تھا۔
پیدائش و اموات کے درمیان افزائش کے مراحل تعلیم و تربیت کے پھلوں سے ذائقہ و خوشبو سے مزین ہوتے ہیں۔ تہذیبی و ترتیبی معاشروں میں حسنِ اخلاق و اخلاص کی کیاریاں پھولوں کو سینچتی ہیں۔ جن معاشروں میں یہ اقدار نہیں ہوتیں وہ جنگل کی مانند بے رنگ  اور بے ترتیب ہوتے ہیں جو کٹنے سے پہلے گنے جاتے ہیں ، پھر کٹ کر تولے جاتے ہیں۔ کیاریوں میں اُگے پھول کثیر تعدادی سے آنکھوں کو ٹھنڈک نہیں پہنچاتے بلکہ خوبصورت رنگوں کے امتزاجِ کثیر سے روح کو تسکین پہنچاتے ہیں۔


تحریر : محمودالحق

3 تبصرے:

محمد ریاض شاہد said...

اتنے عرصے بعد آپ کی تحریر دیکھ کر خوشی ہوئی ۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے

Mahmood ul Haq said...

شکریہ آپ نے یاد رکھا۔خوش رہیں۔

کوثر بیگ said...

بہترین تحریر

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter