Apr 20, 2014

سپرد رضا


انتہائی بھوکے پرندے جب کسی دالان ، کھیت کھلیان میں بھوک مٹانے اترتے ہیں تو اپنی جانوں کو ہتھیلی پر نہیں رکھتے بلکہ اپنے کان اور آنکھیں خطرہ بھانپنے کے لئے کھلے رکھتے ہیں۔ہڑبونگ ادھم مچاتے بچے بھی انہیں موت کے فرشتے نظر آتے ہیں۔ جہاں انہیں کھانا کھانے سے زیادہ جان بچانے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔دوسری طرف بعض جاندار بھوک مٹانے کے لئے آخری کھانا سمجھ کر مرنے مٹنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ حالانکہ پیدا کرنے والا ہی زندہ رہنے کی گارنٹی دیتا ہے۔پھر بھی جب کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو جیسا فلمی ڈائیلاگ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت سننے میں آ جاتا ہے۔ شادی بیاہ پر طوفان بد تمیزی برپا کرتے مہمان اتنے اہم نہیں ہو سکتے کہ زور قلم کو حرف نظر کر دیا جائے۔ اس لئے واپس موضوع کی طرف چلتے ہیں۔
پانی کے آٹھ گلاس پینا صحت بخش ہے۔ چائے مضر صحت ہے۔ چاکلیٹ ،سوڈا بچوں سے دور رکھنا اچھا ہے۔انڈے دودھ چاول روٹی کے ساتھ تازہ پھل کا استعمال صحت کی تر و تازگی کا سبب ہیں۔ شوگر کے مریض چینی کا استعمال کم کریں۔ ہائی بلڈ پریشر والے نمک سے پرہیز برتیں۔صبح یوگا تو شام کو سیر کریں۔رات بستر میں جلد گھسیں صبح جلد نکلیں۔بھاگم بھاگ دکان دفتر پہنچیں تھک ہار واپس پلٹیں۔ایک مکمل اور پابند زندگی جہاں شب و روز کوئی نیا تماشا نہیں جہاں بیماری میں پرہیز تو تندرستی میں گریز برتا جاتا ہے۔
اس اُمید پر سوتے ہیں کہ جاگنا ہمارا مقدر ہے۔ اس اُمید پر گھر سے نکلتے ہیں کہ واپس  لوٹنا  ہمارا مقدر ہے۔کوشش نامکمل ہی کیوں نہ ہو نتیجہ سو فیصد چاہتے ہیں۔
اگر سورج  نظام کائنات سے نکلنا چاہے تو نکلنے کی اجازت نہیں۔ بادل بے آب و گیاہ ریگزاروں تک پہنچنے کے پابند ہیں۔ کہیں ہوا کا کم دباؤ ارد گرد ہواؤں کو آندھی کی صورت وہاں پہنچنے پر مجبور کرتا ہے۔اللہ تبارک تعالی کی رحمتیں مایوسی کی بنجر زمین پر موسلا دھار برستی ہیں۔ جو نم رہتے ہیں وہ پروان چڑھتے ہیں۔جو روٹھے رہتے ہیں وہ سوکھے رہتے ہیں۔
کسی نے کچھ نہ کیا اسے بہت کچھ مل گیا  اور کسی نے بہت کچھ کیا مگر اسے بہت کم ملا۔ موت کفن قبر  بر حق مانتے ہیں۔ رزق عزت مقام پر حق جتاتے ہیں۔ حق کو جانتے ہیں مگر مانتے نہیں۔خالق سے محبت کے دعویدار ہیں مگر صرف جھکنے کی حد تک۔سچ تو یہ کہ حق ادا نہ ہوا۔ رحمان رحمت کے زینے سے سینے میں دسترس رکھتا ہے۔ غرور و تکبر زمین سے پاؤں کی دھول مثل اُڑتا ہے۔ کیسے کہیں ہم تجھ سے  راضی ہیں تو ہم سے راضی ہو جا۔ راضی بالرضا سے ہو گا۔
خالق سے محبت کا تقاضا ہے کہ سپرد رضا کر دیا جائے اس سے پہلے کہ سپرد خاک کر دیا جائے۔
 
 
تحریر ! محمودالحق

2 تبصرے:

افتخار اجمل بھوپال said...

میری کشتی خدا کے آسرے پہ چھوڑ کے ہٹ جا
میری کشتی اگر اے ناخدا تکلیف دیتی ہے

Anonymous said...

الق سے محبت کے دعویدار ہیں مگر صرف جھکنے کی حد تک۔سچ تو یہ کہ حق ادا نہ ہوا۔ رحمان رحمت کے زینے سے سینے میں دسترس رکھتا ہے
بہت خوب ۔ ۔ ۔اچھا لکھا

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter