پوری کائنات اللہ کی محبت کا سمندر ہے ۔ جہان کسی کونے کھدرے میں ایک عاشق ذات کی سیپ کے خول میں چھپا محبت کا موتی ، نظروں سے اوجھل قدر دانوں کے غوطہ زنی کے انتظار میں صدیاں ساحلوں کو تکتا رہتا ہے۔جو ساحل پر کھڑے پاؤں کے نیچے سے سرکتی ریت سے یہی سوچ کر خوفزدہ رہتے ہیں کہ اگر اندر اُتر گئے تو واپس کیسے آئیں گے۔
تلاش ِ ذات کے سفر میں کھوج و جستجو کے خاک آلود راستوں پر مسافتوں کی دھول میں سفر کرنے والے صدیوں کے بعد بھی اپنےہی دائرے سے باہر نکل نہیں پاتے۔ اندھیرے میں پھونک پھونک کر راستوں پر قدم جمانے والے چاندنی راتوں میں قدم اپنے ہی عکس سے راہ پا لیتے ہیں۔
زندگی کو جینا اور زندگی کو جاننا ایک وقت میں ایک ہی سوچ سے ممکن نہیں ہوتا۔پڑھ کر پا لینے سے پا کر پڑھنے کا نشہ خمار میں مبتلا کر دیتا ہے۔شخصیت کے رنگ و روپ قوس و قزح کی طرح اچانک ہی بے رنگ آسمانوں میں خوبصورت رنگ بکھیر دیتے ہیں۔دیکھنے والے سبحان اللہ کہہ کر نظروں سے من میں سمو لیتے ہیں۔شوقِ انتہا کو پہنچنے والے من سے نکال کر پھر نظروں کے سامنے پھیلا دیتے ہیں۔
فاصلے زمین کی قید میں رہتے ہیں۔ آسمان رنگ نہیں بدلتا۔ ہزاروں میل اور صدیوں کی مسافتیں بھی ایک ہی چاہ رکھنے والوں کو اتنا قریب کر دیتی ہیں کہ اپنے دل کی دھڑکن کہیں دور سنائی دیتی ہے۔
انسان فیصلوں کے انتظار میں رہتا ہے مگر نشانیاں تو عقل والوں کے لئے ہیں۔کچھ کھونے کا ڈر پانے کی لذت سے اتنا بڑھ جاتا ہے کہ چاہتے ہوئے بھی نہ چاہنے کی ضد پر قائم رہتا ہے۔
جو کتابوں سے آگہی کا ادراک پانے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ وہ سیاق و سباق کی نظرِ اختلاف کا شکار رہتے ہیں۔عمل کا اختیار تو علم کی طاقت پر ہمیشہ حاوی رہتا ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
2 تبصرے:
یہ خاکی اپنی فطرت میں نوری ہے نہ ناری ہے
بہت ممنون ہوں
کبھی اے حقيقت منتظر نظر لباس مجاز ميں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہيں مری جبين نياز ميں
نہ کہيں جہاں ميں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز ميں
نہ وہ عشق ميں رہيں گرمياں،نہ وہ حسن ميں رہيں شوخياں
نہ وہ غزنوی ميں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف اياز ميں
جو ميں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زميں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کيا ملے گا نماز ميں
Post a Comment