کائنات کی وسعتیں لا محدود ، تا حدِ نگاہ فاصلے ہی فاصلے،نگاہ
اُلفت سے کھوج کی متلاشی مگرتھکن سے چُور بدن کا بستر پر ڈھیر ہو نا اپنی ذات پر
احسانِ عظیم سے کم نہیں ہوتا۔بظاہر یک نظر تخلیق و حسن کے جلوے آنکھوں پر لا علمی کی پٹی باندھ دیتے ہیں اور
عقل پر دلیل کی۔حقیقت جانے بغیر سچائی تک رسائی ممکن نہیں ہوتی۔حقیقت جاننے کے لئے
مخبر خیال مثبت و منفی رویوں کی چغلی کرتے پائے جاتے ہیں۔وسوسہ خیال کی جڑوں میں
نا اُمیدی کی کھاد ڈالتا ہے۔جو اسے حقیقت بن کر سچ تک پہنچنے کے راستے کی دیوار
بنتا ہے۔
حقیقت شناسی کا علم ایک سمندر ہے جس کی چاہ پانے والوں کی
جزبیت چڑیا کی چونچ میں سمانے والے قطروں
سے زیاد نہیں۔ اللہ کی محبت جس دل میں سما جائے وہ عشق کا ایسا سمندر ہے جس کی تشنگی ایک چڑیا کی
چونچ میں سمانے والے چند قطروں سے ممکن نہیں۔آگ پانی سے دور اپنے آلاؤ روشن رکھتی
ہے۔سمندر کے سینے پر جلنا آتش کے بس کی بات نہیں۔جب پانی اپنے بہاؤ سے ان راستوں
پر گامزن ہو جاتا ہے تو آگ کی چنگاریاں
چیخ چیخ کر دم توڑ دیتی ہیں۔۔۔۔بچتا ہے تو صرف پانی ۔۔۔۔۔پیاس بجھانے سے لے کر
سیراب کرنے تک ۔۔۔۔دھرتی حدت سے نمو پانے
کے نشے میں اُتر جاتی ہے۔
قلب عشق کا وہ سمندر ہے۔۔۔ جو اس کے وجود پر اُترتا ہے تو۔۔۔۔۔چند
قطروں سے بیتابی ۔۔۔۔شادابی میں بدل جاتی ہے۔سمند ر کی تشنگی پیاس مٹانے میں ہے
۔۔۔۔۔خود مٹنے میں نہیں۔۔۔۔۔۔جو اعتماد اور چاہت کی کشتیوں کے بادباں کھول کر عشق کے سمندر میں اُترتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ تو عقیدت و احترام کی لہریں انہیں غرق کرنے کی
بجائےبحفاظت کناروں تک پہنچا دیتی ہیں۔
محبت کے موتی چونچوں میں بھر کر وہ چڑیاں ۔۔۔۔نفرت و حقارت کےجلتے آلاؤ میں ۔۔۔۔۔ڈالے
جانے والے عاشقوں کو بچانے کے لئے ۔۔۔۔چونچ
میں بھرے محبت کے سمندر سے لائے ۔۔۔۔ چند قطروں سے آگ بجھانے میں مصروف ہو جاتی
ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ یہ پانی عاشق ِحقیقی کو آگ سے بچانے کے لئے نا کافی ہے ۔۔۔۔۔۔ مگر عشق و
محبت کی داستان میں وہ اپنا کردار نبھانا چاہتی ہیں۔تاکہ سچے عشق اور سچے عاشق کی
نظر میں سرخرو ہو جائیں۔
تشنگی کی انتہا کیا ہے؟
سمندر کا پانی ۔۔۔۔۔۔۔
جنگل کی آگ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔ایک چڑیا کی چونچ ۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت کے سمندر سے چند قطرے پانی چڑیا
کی چونچ میں عشق کی آگ بجھانے میں جب ناکافی
ہو جاتے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔تو تشنگی کی انتہا ہے یہ ۔۔۔۔۔۔۔ پا کر بھی مکمل پایا نہ جا
سکے۔۔۔۔۔۔ بجھا کر بھی مکمل بجھایا نہ جا سکے۔
برسہا برس سے خوش
نصیبی کو ترستی بنجر زمین ۔۔۔۔۔ جس کے اوپر سےبادل بن برسے گڑ گڑا کر گزر جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔اسے چند قطرے سیرابی کیفیت سے دوچار کر دیتے ہیں۔ یہ زمین کی تشنگی
کی انتہا ہے ۔۔۔۔۔۔مگر بادل مکمل برس کرتحلیل ہونے سے سیراب ہونے کی کیفیت سے سرشار
ہوتا ہے۔یہی اس کی تشنگی کی انتہا ہے۔
اشرف المخلوقات میں تشنگی کی انتہا جاننے کے لئے ۔۔۔۔۔ کیفیت سے زیادہ عقل کے ترازو پر رکھی سمجھ بوجھ ۔۔۔۔۔کانٹ چھانٹ کے بعد محتاط طرز عمل سے زیادہ
تر پڑھی جاتی ہے سمجھی نہیں۔
کسی جزبہ ۔۔۔۔شدت احسا س۔۔۔۔۔۔افکار تخیل۔۔۔۔۔۔لمس لفظ
۔۔۔۔۔۔۔یا ۔۔۔۔۔قربتِ محبوب کی کسوٹی پر پرکھا نہیں جا سکتا۔
صرف اتنا جان لینے سے حقیقت حق کے ساتھ ۔۔۔۔ ضمیر روشن کو آمادگی کی راہ پہ ۔۔۔۔خوش
آمدیدی نظریں بچھائے ۔۔۔۔لینے آ جائے تو
جواب مل جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔لینے کی جگہ اگر اللہ تبارک تعالی کی محبت کا سمندر ہو ۔۔۔۔۔۔۔ پانے والی چڑیا ہو۔۔۔۔۔۔ دینے کی جگہ آگ میں ڈالا گیا عشق حضرت ابراہیم
علیہ اسلام کا ہو ۔۔۔۔۔۔۔ تو پانے میں کمی اور دینے میں جان تک چلی جانے سے تسلی
نہ ہو تو
تشنگی کی انتہا کسے کہتے ہیں ۔۔۔۔۔جان جاتےہیں۔
تحریر ! محمودالحق
3 تبصرے:
محبت کے سمندر سے چند قطرے پانی چڑیا کی چونچ میں عشق کی آگ بجھانے میں جب ناکافی ہو جاتے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔تو تشنگی کی انتہا ہے یہ ۔۔۔۔۔۔۔ پا کر بھی مکمل پایا نہ جا سکے۔۔۔۔۔۔ بجھا کر بھی مکمل بجھایا نہ جا سکے۔
بات تھوڑی مشکل تھی لیکن خوب نبھائی ۔
noureen tabassum ، sarwataj
آپ کا بہت شکریہ میری مشکل کو آسان بنا دیتی ہیں اسے تھوڑی مشکل سے سمجھ کر۔میرے جیسے کم علم انسان کے لئے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے
اللہ آپ کو سلامت رکھےْ
Post a Comment