Jul 18, 2010
چینی کم
باتوں کی جھڑی جب لگ جائے تو قہقہوں کی برسات روکنے سے نہیں تھمے گی۔
اب اگر منانے والے یہ کیوں نہ کہتے پھریں کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ۔ ہاں یہی بات تومیں کہنا چاہتاہوں ۔ آخر کب تک باتوں ہی سے پیٹ کا جہنم بھرتے پھریں ۔ ایندھن ویسے بھی اب ملنا مشکل ہے ۔ بس چنگاری بڑھکانے والے آتش تیلی انگلیوں میں دبائے رکھتے ہیں ۔چاہے اس سے سگریٹ سلگا لیں یا کسی کا گھر حسد کی آگ سے بھسم کر دیں ۔کوئی ملال نہیں ۔
انتہا تو یہ ہے کہ حلال وہی سمجھتے ہیں جو حرام کی کمائی سے چاہے خریدی گئی ہو مگر حرام نہ ہو ۔
بات صرف کھانے کی حد تو ہوتی تو خیر تھی مگر یہاں بات اس سے بھی آگے بڑھ چکی ہے ۔ اگر لکھنے کی غلطی کر بیٹھا ۔ٹخنے کیسے بچاپاؤں گا ۔ جیسے بچپن میں سبق یاد نہ کر کے آنے کی پاداش میں ماسٹر کی چھڑی سے کبھی بچا نہیں پاتے تھے ۔بات تو صرف ہو رہی تھی حرام حلال کی جو صرف کھانے کی حد تک اپنے اوپر حد کی صورت میں لاگو رہتاہے ۔ مال تو ہمیشہ حلال ہی ہوتا ہے ۔چاہے وہ چینی مہنگی ہونے سے ہو یا ڈیزل کے کمیشن سے ہو ۔
جان کی امان پاؤں تو عرض ہے کہ یہ تو صرف طرز ہے ۔ ورنہ کہاں یہ منہ اور یہ مسور کی دال ۔اتنے برے غلطی معاف کریں بڑےناموں کو ہدف تنقید بنانے کی اب جرآت کہاں رہ گئی ۔ رہنمائی سیدھے راستہ سے حاصل ہوتی ہے ۔جب رہنما سیدھے راستے سے نہ آتے ہوں تو رہنمائی تو در کنار دھلائی بھی ٹھیک طرح سے ہونا مشکل ہے ۔جب نعرہ یہ ہو کہ غریب نہیں رہے گا تو پھر غریب کو بھی تو یہ چاہئے کہ وہ کہے غربت بھی نہ رہے ۔
لیکن اب وقت کا یہ تقاضا ہے کی وہ مغرب کے بعد گھروں میں رہیں ۔غربت تو پہلے ہی ہے اب کہیں رات اپنے ہی نالہ سے باندھ کر کوئی سڑک پر پھینک جائے اور کپڑے لوٹ لے جائے ۔ یہ زمانہ دیکھنے کو کیا باقی ہے کہ عزت بچی رہے کپڑے لوٹ لئے جائیں۔پہلے ہی بڑی مارکیٹوں کے سرمایہ دار اچھی گانٹھیں کھول کھول کر ولائتی بابو ہینگر میں لٹکا کر دعوت خرید کے جرموار ہیں ۔
جرم تو ان کے بھی سنگین ہیں کہ سامنے جن کے کپڑے خون میں رنگے جاتے ہیں ۔مگر ان کی دعوت جو شاہی محل کے شیش محل کے لان جیسی خاص ہو ۔عام الناس کو فقط اپنے جوتے بغل میں دبائے کسی عقیدت گاہ کے منظر سے کم نہیں رہ گئی ۔قصور ان کی نظر کا نہیں ہے ۔ معاملہ عقیدت کا ہے ۔سبز باغ دکھا کر پانی لگانے والے باغبان اقوام میں شامل ہونے کی افواہ اڑانے سے خوش فہمی کی ایسی گھاس پر ننگے پاؤں چلاتے کہ گلدستے بنا بنا انہی کے گلدانوں میں اپنے ہاتھ سے سجاتے۔ خوشی خوشی چھوٹے مالک کو کندھوں پر اٹھا اٹھا گلکاریاں کرتے اظہار تشکر ختم نہیں ہوتا ۔حاکم ،محکوم کو مالک ،مالی بھی کہاجا سکتا ہے ۔
مشورہ مفت ہو عمل کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ایک انگلی ایک کان میں اور ایک انگلی دوسرے کان میں دیں ۔ آذان کے لئے تیاری کا نہیں کہ رہا ۔انگلیاں کانوں میں ٹھونسنے کا مشورہ ہے ۔اب صرف اتنا کریں کہیں آنکھوں میں پٹی خود سے نہ باندھ لیں۔ ایسا اس لئے کہا جلوس نکالنے کا کہا جائے یا ریلی نکالنے کا تو کسی شرپسند یا مالک کا سند یافتہ پتھر ایک پھینکے تو مجمع کتبے بینر چھوڑ باقی کا کام خود سے ہی پورا کر دیتے ہیں ۔
پھیکی چائے پی کر لب شیریں نہیں رہ گئے ۔ فرہاد کو ڈھونڈ کر لانا ہی ہو گا جو میٹھے دودھ کی نہر کھود ڈالے ۔اب کیا کریں دودھ پینے والے مجنووں کی بھرمار ہے ۔ سلطان راہی مجھے ہمیشہ سے ہی پسند تھا ۔ غربت تو ختم نہ کر سکا۔ مگر غریب کے دل میں امید کی کرن جگا تارہا ۔ خون کی ندیاں خود ہی بہاتا رہا۔ اور خون کبھی بھی سکرین سے باہر نہیں ٹپکا ۔اب تو خون ہر طرف ٹپکتا ہے ۔اور وہ بھی غریب کا ۔ غربت ختم کرنے کا انوکھا طریقہ ایجاد ہو ا ہے ۔ جو صرف غریب ختم کرکے شائد ختم ہو ۔سکرین پر ختم ہونے والےہر کشت و خون کے بعد یہ ضرور آتا تھا ۔ ختم شد۔
مگر اب بات ختم پر ہی شائد ختم ہو۔ جس پر بھی اعتراض کیا جا سکتا ہے ۔ اتنی ڈشیں بنانے کی کیا ضرورت ہے ۔ مہنگائی کے دور میں ایسی فضول خرچی کہ انسان کا مرنا آسان اور جینامشکل ہو ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو خودکشی کو حرام کہنے سے جینا حلال بھی تو ممکن نہیں۔ ممکن تو یہ بھی نہیں کہ ہم آج ایک عہد کر لیں کہ نفرت کی آگ بڑھکنے سے پہلے رواداری کے پانی سے بجھا دیں گے ۔رواداری باری باری سے ہی ممکن ہے ہاری کی آزادی سے نہیں ۔عوامی باری تو کبھی آئے گی نہیں ۔ زر کا دور ہے ۔ شر کا زور ہے ۔ پھر سب سے کم لکھنا ہی کمزور ہے ۔
میرا سلام ہے ۔ اردو کو انٹر نیٹ پر متعارف کروانے والوں کو ۔ جن کی بدولت کاغذ قلم کے اخراجات سے مفت میں ہی محفوظ رہنے کا فارمولہ پا گئے۔اور بے تکی تحریروں کا سلسلہ بلاگ کی کھونٹی سے باندھنے میں کامیاب ہوئے۔ اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کو سچ کر دکھایا ۔دودھ کے اثرات زائل ہو بھی جائیں مگر کھونٹی سے آزادی کا خواب کبھی پورا نہیں ہونے دیں گے ۔بلاگستان میں دھما چوکڑی ہوتی رہے ۔ناموں میں کیا رکھا ہے ۔کانٹے زیادہ بڑے ہوں تو پھول اتنے ہی خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔
پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی ۔ شکر ہے خبر پھیلانے والوں میں ہمارا شمار ہو گا ۔ شر پھیلانے والوں سے وابستگی ثابت نہیں کر پائیں گے۔گالی کی کوئی گارنٹی نہیں ۔ شائد غصے میں کبھی پھسل گئی ہو ۔مگر ڈگری کی گارنٹی ہے ۔ دن رات کی محنت اور کئی عدد سگریٹ کے پیکٹ پھونکنے کی قیمت میں حاصل کی تھی ۔ لیکن ڈگری کا علم سے بھلا کیا تعلق ۔میٹرک پاس عالم فاضل صحافی لاکھوں گریجوایٹس سے علمی برتری کےدعویدار ہیں ۔کبھی ہم یہ دعوی کرتے ہوئے پائے جائیں کہ لاکھوں میٹرک فیل سے جہالت میں بدتر نہیں تو یقین کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہے گا ۔کیونکہ قدر مشترک ایک ہی ہے کہ چائے صرف چینی کے لئے پیتے ہیں۔حقہ اگرچہ کڑوہ ہوتا ہے مگر چسکا گڑ کا رہتا ہے ۔اب اگر گڑ چینی سے مہنگاملے تو باتوں میں کیوں نہ مٹھاس ہی پیدا کر لیں ۔ اب اس مفت کے مشورہ کی حیثیت کسی زخم پر جونک لگوانے سے زیادہ کیا ہو گی ۔جونکیں پہلے ہی خون چوس چوس کر موٹاپے کا شکار ہیں ۔نا امیدنہ ہوں اقبال رحمہ فرما گئے ہیں۔
نہیں نا امید اقبال اپنی کشت ویران سے
زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
8 تبصرے:
اتنا میٹھا ڈال کر بھی حقائق کی تلخی کم نہیں ہو پارہی آپ کی تحریر سے تو ایسا کریں ٹھنڈی کھویی سے آدھ کلوبادام والی برفی پکڑ لیں اور دونوں بھائی ملکر سبز چائ کے ساتھ سڑک سڑک کر کھاتے ہیں
ابھی تو صرف ایک کپ چائے کے ساتھ ایسی میٹھی تحریر لکھی ہے اگر ٹھنڈی کھویی سے آدھ کلوبادام والی برفی کھائی ہوتی تو اردو بلاگستان میں سب پھیکی چائے پیتے ۔ کیا خیال ہے
آپ نے جو لکھا ہے وہ سچ ہےمگر انتظار کب تک اب تو اتنی ہمّت نہیں رہی کیہ ایک موہوم سی امید کے سہارے ساری زندگی کسسی مسیحا کا انتظار کیا جا سکے
بڑی زبردست بات کی جھڑی ھے۔لیکن کچھ کچھ مٹھاس کی تشنگی ہی محسوس کر رہا ہوں۔بس جی یہ تلخیاں چلتی ہی رہیں گی۔
توارش صاحب ہمت باندھ کر رکھیں امید کی کرن روشن رہے گی تو شائد اگلی نسل کو انتظار نہ رہے ۔
یاسر خوامخواہ جاپانی صاحب
لکھنے میں ایسی خاص تلخی محسوس نہیں ہوئی ۔موڈ تو میٹھا تھا ۔شائد تلخیاں زندگی کا حصہ بن گئی ہیں ۔
آپ کی فلسفہ سے بھری تقرير تو ميں نے پڑھ لی مگر اس کا کيا بنے کہ ميں دو جماعت پاس ہوں ؟
ميری سمجھ ميں تو صرف اتنا آيا ہے کہ
جہاں ميٹرک تھرڈ ڈويزن جعلی ڈگری والوں کا جلوس نکال ديں مگر اپنی کالی بھيڑوں کو بچانے کيلئے ايک بے ضرر قراداد کے خلاف طوفان مچا ديں
حکمران عوام کو صبر اور برداشت کی تلقين کريں اور خود اُن کے مال پر گُلچھڑے اُڑائيں اور دساور ميں عياشياں کريں
عوام دھماکوں اور گوليوں سے مريں اور حکمران عوام کی جيبوں سے نکالے ہوئے پيسوں سے سات سات کروڑ کی بُلٹ پروف گاڑيوں ميں سفر کريں
پڑھے لکھے بلاگستان پر دھماچوکڑی مچائيں مگر سوال گندم کے متعلق کيا جائے تو جواب ميں چنے کی آپ بيتی سنائيں جو اس بے سُرے طوفان سے بچنا چاہے اُسے قصور وار اسی طوفانِ بدتميزی کا ٹھہرائيں
يا اللہ تيرے بندے کدھر جائيں
اجمل صاحب فلسفہ تو میں نے زندگی میں نہیں پڑھا ۔ تاریخ پڑھ رکھی ہے ۔جو حکمرانوں کے سیاہ کارناموں سے بھری پڑی ہے ۔عوامی رائے میں ایسی ہی تلخیاں پائی جاتی ہیں ۔ آپ کے اس جملے کی سمجھ نہیں آئی "پڑھے لکھے بلاگستان پر دھماچوکڑی مچائيں مگر سوال گندم کے متعلق کيا جائے تو جواب ميں چنے کی آپ بيتی سنائيں".
پڑھے لکھے بلاگستان پر دھماچوکڑی مچائيں مگر سوال گندم کے متعلق کيا جائے تو جواب ميں چنے کی آپ بيتی سنائيں جو اس بے سُرے طوفان سے بچنا چاہے اُسے قصور وار اسی طوفانِ بدتميزی کا ٹھہرائيں
يا اللہ تيرے بندے کدھر جائيں
زبردست بات کہی اجمل انکل نے مزہ آگیا،،،
Post a Comment