Jun 24, 2010

قدر ِ تخلیق میں محبتِ خالق

بچپن میں محلے کے لڑکے مل کر کینچے کھیلتے ،کٹی پتنگوں کےپیچھے بھاگتے، تو کبھی کبوتر اُڑاتے ۔ تو  بزرگ ایسے کھیلوں سے منع کرتے اور نصیحت بھی ۔ اپنا وقت فضول کاموں میں ضائع کرنے کی بجائے پڑھائی کی طرف توجہ دینے پر زور دیتے ۔ اور جو زبان سے کچھ نہ کہتے مگر ان کا رویہ اپنائیت کا احساس دلاتا ۔ دادا نانا کہلاتے بزرگ پاس سے گزرتے ہوئے آداب یا اسلام و علیکم کہتے ۔ جواب میں وعلیکم اسلام تو کہہ دیتے مگر شرمندگی سے ۔ان کا سمجھانا یا ڈانٹنا کبھی برا نہیں لگتا تھا ۔ مگر ان کے سامنے آنے سے کتراتے ضرور تھے ۔تاکہ کسی نصیحت کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے ۔جس پر عمل کرنے کی ان میں تاب نہ تھی ۔ باتیں ان کی غلط نہیں تھیں ۔سمجھانا بھلائی کے لئے ہوتا ۔ پھر بھی ان سے دور رہتے اور عمل بھی نہ کرتے ۔مگر ان کی عزت و احترام میں کبھی فرق نہیں آتا ۔ احترام ہمیشہ دل میں رہتا ۔ نہ سمجھنا کسی خاص وجہ سے نہیں تھا ۔ بلکہ تفریح کی لطف اندوزی کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتی تھی ۔کھیل کود اور ایسی تفریح کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا ۔

جنہوں نے نصیحتوں پر عمل نہیں کیا ۔ استاد زمانہ نے حالات کی رسی میں اچھی طرح کس کر وہ باتیں سمجھائیں ۔ زندگی کو وہ جو معنی پہناتے رہے ہیں ۔دراصل وہ ایسی نہیں ہے ۔
آج نئی نسل کے ہمارے بچے کینچے کھیلنے اور کبوتر پالنے کے شوق تو نہیں رکھتے ۔ مگر آج ہماری نصیحتیں اپنے بزرگوں جیسی ہی ہیں ۔مگر سمجھنے کا انداز بدل چکا ہے ۔ٹی وی گیمز کھیلنا اور ٹی وی دیکھنے کو ان فرسودہ تفریح سے بہتر جانا جاتا ہے ۔ماضی کے تجربے سے ہم کبھی خود سے ہی پریشان ہو جاتے ہیں ۔کہ کہیں دوسروں کو ہماری باتیں ناگوار نہ گزرتی ہوں ۔ کچھ ایسا ہی حال ہماری تحریروں اور آزاد شاعری کا بھی ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اکثر ان کے پاس سے ایسے گزر جاتے ہیں جیسے بچپن میں ہم بزرگوں کو سامنے سے آتا دیکھ کر راستہ بدل لیتے یا چھپ جاتے ۔ تاکہ ہماری تفریح طبع کا تسلسل نہ ٹوٹ پائے ۔ مجھے اس بات کی کوئی پریشانی نہیں کیونکہ میں نہ تو شاعر ہوں اور نہ ہی ادیب ۔ بچپن سے ہی کتابوں کے علاوہ کھیل کود میں خاص دلچسپی رہی ۔لیکن اب لکھنا ایسی مجبوری میں ڈھل چکا ہے کہ خیالات میں جو ہنگامہ برپا ہوتا ہے لکھنے سے ختم ہوتا ہے ۔
حالات نے جو ہمیں سمجھایا بچپن سے جوانی تک ایسا کبھی کسی نے نہیں بتایا ۔کئی بار یہ خیال دل میں طوفان بن کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ لکھنا کیا ضروری ہے ۔پڑھنے والے کہیں مجھے مولانا فصیحت ہی نہ سمجھنا شروع کر دیں ۔ مولوی بننے کے چانسسز بہت کم ہیں ۔بچپن میں قرآن پاک مسجد میں قاری صاحب سے پڑھا ۔ تب عربی متن پڑھایا اور یاد کرایا گیا ۔ ترجمہ گھر میں خود سے پڑھا ۔
ضروری نہیں کہ لکھنے کا سلسلہ بھی ہمیشہ چلتا رہے ۔زندگی میں ترجیحات بدلتی رہتی ہیں ۔ اور جو کام بچپن کے کسی شوق کا نتیجہ نہ ہو کسی وقت بھی اپنے اختتام کو پہنچ سکتا ہے ۔مختلف مصنفین کی تصانیف پڑھنے کے اثرات لکھنے پر ضرور اثر انداز ہوتے ہوں گے ۔ مجھے بادی النظر میں تو کوئی ناول نگار ہونا چاہئے کیونکہ نسیم حجازی کا کوئی ناول شائد ہی کبھی چھوڑا ہو ۔
شائدانسان تخلیق سے متاثر ہو کر اس کے زیر اثر لکھنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ کائنات کی تخلیق نے مجھے اپنے سحر میں گرفتار کر لیا ۔سمجھنے کی کوشش میں خالق ابھر کر عقل تصور میں سرایت کر گیا ۔ ہر تحریر کا مرکز خالق کائنات کی تخلیق سے متاثر صورت دکھائی دیتی ہے ۔ تحریر یں اتنا گہرا اثر نہیں چھوڑتی جتنا تخلیق گہرے نقوش چھوڑ جاتی ہے ۔کائنات ِ پھیلاؤ میں انسانی سوچ دھنس جاتی ہے ۔جہاں خالق کی تخلیق مخلوق کی ایجاد پر بہت بھاری ہو جاتی ہے ۔جیسے چاند پر ڈسکوری کا پہنچنا کمال نہیں ہے ۔ کمال تو یہ ہے کی ایک ننھا کمزور پودا سنگلاخ چٹانوں کو چیر کر اپنا راستہ بناتا ہے ۔نظام حیات میں نظام کائنات جیسا تسلسل نہیں ۔ہنگامہ خیزی اور تجسس سے بھرا ایک عارضی پن پایا جاتا ہے ۔ اگر تخلیق کی قدر ہو گی تو خالق سے محبت ہو ہی جاتی ہے ۔


سب سے جدا رنگ نو اللہ ہو اللہ ہو
مراتب جہان میں خداۓ تو اللہ ہو اللہ ہو
مائل ہے پردہ خیال پَر تَو اللہ ہو اللہ ہو
پکار اٹھے خاک طور ہو اللہ ہو اللہ ہو


تیری رحمتوں کا یہ اظفر اللہ اکبر اللہ اکبر
تیری حکمت سےبھرےاحمر اللہ اکبر اللہ اکبر
نورہلال سےپھیلے پیکر ازہر اللہ اکبر اللہ اکبر
عرش پہ پیوست مجسم امبر اللہ اکبر اللہ اکبر

روشن عطار / محمودالحق

5 تبصرے:

عمار ابنِ ضیاء said...

سبحان اللہ. بہت خوب.

پھپھے کٹنی said...

بزرگوں کی عادت ہوتی ہے الٹی سيدھی باتيں کرنا ہمارے بزرگ بھی خود کو سو فيصد سمجھ کر اپنے جيسا بننے کی تلقين کرتے رہتے تھے اور اب ہم بزرگ بن کر ايسی باتيں کرتے ہيں حقيقت يہ ہے کہ ہر دور اس وقت کے نوجوانوں کا ہوتا ہے اور وہ بہتر سمجھتے ہيں کہ کيا کرنا ہے ميں چونکہ گھر کے اندر گڑيوں سے کھيلی ہوں تو ميں اپنی بچيوں کو مجبور کروں کہ وہ بھی ايسا ہی کريں کہ پارک جا کر کھيلنا مجھے پسند نہيں يا کمپيوٹر پر ميں نے گيميں نہيں کھيليں تھيں تو ميرے بچے بھی نہ کھيليں يہ تو نرا پاگل پن ہے

افتخار اجمل بھوپال said...

آپ نے سب کچھ درست لکھا ہے ۔ ايک بات ہے اُس زمانہ مين کھيل ميں بچے اتنا وقت ضائع نہيں کرتے تھے جتنا آجکل کمپيوٹر گيمز اور ٹی وی پر ضائع کرتے ہيں

نہ سب بزرگ ايک جيسے ہوتے ہيں نہ بچے اور نہ وقت ايک سا رہتا ہے ۔ سوہنے اللہ کے نيارے رنگ ہيں جو سمجھ گيا وہ پا گيا جس نے سمجھنے کی کوشش نہ کی وہ پچھتايا مگر اُس وقت جب چڑياں چُگ گئيں کھيت
ميں نے نہ گولياں يا بنٹے يا بلور کھيلے نہ اخروٹ اور نہ گلی يا سڑک پر کھيلنا پسند تھا ۔ پتنگ زندگی ميں دو بار اُڑائی ايک جب ميں 9 سال کی عمر کا تھا اور ايک جب ميں 11 يا 12 سال کی عمر کا تھا ۔ ميرے دادا نے صرف ايک بار کہا تھا کہ کھانا کھتے ہوئے باتيں نہيں کرتے ۔ مجال ہے کہ گھر ميں کبھی کسی نے کھانا کھاتے بات کی ہو ۔ آجکل باتوں کی محفل ہی کھانے پر لگتی ہے ۔ جب ميں آٹھويں جماعت ميں تھا تو والد صاحب نے ہم سب بہن بھائيوں کے سامنے صرف ايک بار کہا تھا تعليم حاصل کرو گے تو بڑے آدمی بنو گے اپنے پرائے سب عزت کريں گے ورنہ دوسرے تو کيا اپنے بھی سلام کرنے سے کترائيں گے ۔
ميں نے اپنے بچوں کو کبھی کچھ نہيں کہا تھا سوائے اس کے کہ کبھی کبھی پوچھتا "بيٹا سکول کا کام کر ليا ہے ؟ اگر نہيں کيا تو جلدی سے کر لو ۔ سمجھ نہ آئے تو مجھ سے پوچھ لينا"۔
اسی لئے ميں نے کہا کہ دنيا اللہ نے ايک جيسی نہيں بنائی ۔ بات سمجھنے کی ہے

شازل said...

فل فارم میں ہیں

پھپھے کٹنی said...

اجمل انکل بچوں کو بات سمجھانے کا طريقہ بھی بتا ديں کہ کيسے ايک دفعہ سے مان جاتے ہيں ميں تو ہر کھانے ميں سو دفعہ کہتی ہوں کھانا چپ کر کے کھاؤ مگر کوئی سنتا ہی نہيں

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter