انسان فطرت میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے فطرت میں دور ہے ۔ انسانی سوچ یک طرفہ ٹریفک کی مانند ایک رخ پہ زیادہ چلتی ہے ۔ساتھ چلنے والے چاہے تیز رفتار کیوں نہ ہوں ۔قربت کا احساس دیر تک ساتھ رکھتے ہیں ۔ مگر اس کے مقابلے میں مخالف سمت آنے والے خاموش ، بے آواز ،بے ضرر کیوں نہ ہوں۔ خوف میں مبتلا رکھتے ہیں ۔پانی کے بہاؤ میں آگے بڑھتی ناؤ پانی کے فرش پہ پھیلتی چلی جاتی ہے ۔مخالف سمت بہاؤ میں تو بادبان بھی نہیں کھلتے ۔اور نہ ہی ملاح کے دست و بازو ساتھ نبھاتے ہیں ۔
جیسے زبان سے سچ پھسلتا اور جھوٹ اٹکتا ہے ۔
زبان اچھا چکھنے اور کان اچھا سننے کی فطرت پہ ہوتے ہیں ۔اچھا سننا سچ اور جھوٹ کے ترازو سے نہیں تولا جاتا ۔بلکہ سوچ کے انداز ِ اصول پہ ہوتا ہے ۔بیٹا ماں کے قدموں میں بیٹھ کر خوشنودی کی خاطر بیوی کی نا معقولیت کا شکوہ کرے تو سننا اچھا ہے ۔ لیکن بحیثت بیوی مرد کا یہی فعل برا سمجھا جاتا ہے ۔
ایسا آلہ بھی کیوں نہ ایجاد ہوتا ۔ جو ایک اپریشن سے انسان کے اندر سے بغض ، حسد ، لالچ ، جھوٹ کا زہریلا مادہ نکال باہر کر سکے ۔اگر یہ فاسد مواد گردش خون سے پیدا ہوتا تو شائد ممکن بھی ہوتا ۔مگر یہ تو آنکھ اور کان سے روح میں اترتا ہے ۔ اور لعاب دہن میں لپٹ کر جسم سے نکلتا ہے ۔آج تک کسی بھی طبیب نے آلات جراحی سے روح کی جراحی نہیں کی ۔ اس سے بچنے اور محفوظ رہنے کا وہی راستہ ہے جو مذہب نے بتایا ہے ۔ وہ راستہ ایجاد کا نہیں انسانیت کا ہے ۔جو جھوٹ و فریب کی پزیرائی نہیں کرتا اور دل آزاری بھی نہیں چاہتا ۔
جو سمجھتے ہیں کامیابی ان کو ہے
صورت ہی کی دستیابی ان کو ہے
دیکھو جلوے پھیلے انوار روشن کے
منظر جو نظر ہو بیتابی ان کو ہے
8 تبصرے:
حضور ہر آدمی کو وہی نظر آتا ہے جو وہ ديکھنا چاہتا ہے ۔ اگر آپ چلتے بادلوں کو غور سے ديکھنا شروع کر ديں اور سوچنا شروع کرين کہ يہ فلاں شکل بنا رہے ہيں تو آپ کو ہُوبہُو وہی شکل چند لمحوں ميں نظر آئے گی ۔
آپ کمرے ميں اکيلے ليٹے ہيں کوئی مُخل نہيں ہو رہا ۔ ديوار پر ايک جگہ روغن اُترا ہوا ہے ۔ آپ اسے غور سے ديکھنے لگ جائيں اور ديکھتے ديکھتے آپ خيال کريں کہ يہ تو ايسی شکل بنا رہا ہے تو وہی شکل کچھ دير ميں بن جائے گی ۔
لوگ جو بڑے وثوق سے بتاتے ہيں کہ اُنہوں نے جِن يا بھُوت يا چھلاوا ديکھا تھا اُنہوں نے کچھ نہيں ديکھا ہوتا يہ اُن کے تخيّل ميں تصوير بنتی ہے اور آواز بھی اُنہيں اپنے تخيل سے ہی آتی ہے
ميں نے اللہ کے کرم سے اس پر جوانی ميں کافی تحقيق کی ہوئی ہے
اجمل صاحب مجھے آپ سے اتفاق ہے ۔اگر کسی میں اچھا احساس ہے تو اچھا خیال بنے گا اور اگر برا خیال ہے تو برا امیج ابھرے گا ۔جیسے جو خود جھوٹے ہوتے ہیں انہیں ساری دنیا جھوٹی نظر آتی ہے ۔ جو خود کو عقلمند سمجھتے ہیں انہیں دوسرے بیوقوف نظر آتے ہیں۔ جو ٹینشن یا ڈیپریشن کا شکار ہوتے ہیں بعض اوقات غیبی آواز سنائی دینے کی شکایت کرتے ہیں ۔ہر انسان کے سوچنے کا انداز مختلف ہے ۔
افتخار صاحب، واقعی ایسا ہی ہوتا ہے.
وہ کہتے ہیں نا کہ
We don't see things as they are. We see things as we are.
احمد عرفان شفقت صاحب
یہی وجہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو قائل نہیں کر پاتے ۔
کسی کو سمجھنے سے پہلے مجھے اپنا آپ ہی سمجھ نہیں آرہا جتنا اپنے اندر دیکھتا ہوں زہریلا مادہ ہی نظر آتا۔واقعی مذہب نہ ہو تو انسان اپنے لئے مزید دشواریاں پیدا کر لے۔
محمُود بھائ کِتنی اچھی پوسٹ لِکھی ہے
سچ کہا آپ نے ،کُچھ بھی سوچیں اچھا سوچیں اللہ تعالیٰ ہمیشہ اچھا کرے گا میں یقین رکھتی ہُوں اِس بات کا سو ہمیشہ اچھی سوچ رکھیں،،،
آپ خُود دیکھیں کوئ بھی بُرا کِردار ادا کرے تو اُس کی شکل بھی ویسی ہی لگنے لگتی ہے اور اگر اچھا کِردار اُسی بندے کا بھی ہو تو وُہی بہُت اچھا دِکھنے لگتا ہے ،،،،
یعنی اچھی سوچ کا اثر بھی چہرے پر آجاتا ہے،،،
یاسر خوامخواہ جاپانی
اگر آپ سمجھتے ہیں تو پھر اس مادہ کو صحیح خطوط پر استعمال میں لائیں ۔ سب سے مشکل کام ہی دوسروں کو سمجھنا ہے ۔ ایک چہرے پہ کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ
شاہدہ اکرم بہن آپ سب کی قدر افزائی ہے ۔ یہ تحریریں میری زندگی کا سچ ہیں ۔ جسے بیان کرتا چلا جا رہا ہوں ۔
Post a Comment