Jul 21, 2010

پتھر بھی بول اُٹھے

معمولات زندگی کے شب و روز ایسے گزرتے ہیں ۔کہ اگر خاموش رہیں تو سینہ پتھر ہو جائے ۔بول اُٹھیں تو جیسےپتھر لاوہ بن کر بہہ نکلے۔پھولوں کی طرح کھلتے ہوئے مسکرانا ، بھینی بھینی خوشبو کی طرح پھیل جانا محض محاورہ کی دنیا کی دل نشینی تک محدود ہے ۔جو آنکھوں میں خواب جاگنے کے بعد شروع ہوتے ہیں ۔ جنہیں پلکیں اُٹھا اُٹھا کر تھک کر بند ہو جاتی ہیں ۔
پتھر کے زمانے کا انسان ترقی کے میدان کا سورما تو نہیں تھا مگر طاقت ، توانائی اور تندرستی تناور درخت کی مانند رکھتا تھا ۔پتھر سے ہی تیار ہتھیار اور اوزار سے لیس رہتا ۔مگر خود پھول اور پتوں کی مانند محبت میں نرمی رکھتا ۔جیسے جیسے پتھر زندگی میں غیر اہم ہوتے چلے گئے ۔چٹانیں بھی اپنی قدر کھوتی چلی گئیں ۔
لکڑی لوہا اپنے آپ کو ہر رنگ میں ڈھالنے کی صلاحیت کے بل پر انسانی معاشرے میں جستجوء حاصل کی معراج پہ جا پہنچا ۔جس میں گلنے گھسنے کا عمل زیاکاری اپنی آخری حد تک ہوتا ہے ۔
صحیح ہی تو کہا جاتا ہے کہ سینوں میں دل نہیں پتھر ہیں ۔جو ہر احساس سے خالی رہتے ہیں ۔پھر دوسرے ہی لمحے یہ کہنا کہ چٹانوں کی طرح جمے رہنا بہادری اور فتح کی نشانیاں ہیں ۔پھر یہ تاثر بھی کہاں تک درست ہے کہ کسی پر اتنا دباؤ بڑھایا جائے ۔ کہ وہ برداشت ہی نہ کر پائے ۔ اور ایسا ہو جائے کہ کہنے والے کہنے سے نہ چوکیں کہ اب تو پتھر بھی بول اُٹھے ۔
پتھر پر ضرب لگانے کا انداز لکڑی کی طرح نرم ، لوہا کی طرح گرم نہیں ہوتا ۔کہ کٹنا اور ڈھلنا آسان ہو ۔بلکہ پتھر اپنے پر استعمال کی گئی ہر ضرب کی طاقت کو واپس بھی لوٹا تاہے ۔
اہرام مصر کا معمہ آج بھی حل طلب ہے کیسے اور کیونکر وہ پتھر وہاں تک پہنچائے گئے ۔ آج موضوع صرف پتھروں کی تاریخ بیان کرنے کے لئے کافی نہیں ہے ۔اصل مقصد تو انسانی مزاج کو تشبہہ و استعارات سے منسوبیت ہے ۔انسان زندہ تو مٹی ، ہوا کی بدولت ہے ۔مگر مزاج کی تاثیر لکڑی لوہا یا پتھر سے تابکاری اثرات کی طرح حاصل کرتا ہے ۔لکڑی لوہا سے حاصل کردہ کٹی اور ڈھلی ہوئی اشیاء انسانی قدروں کے قد کاٹھ میں پستی اور اونچائی کا معیار بنا دی گئی ہیں ۔ایک سے بڑھ کر ایک ڈیزائن اور تخلیق نے مخلوق کو تقسیم کی تفریق میں مبتلا کر رکھا ہے ۔مگر احساس تحفظ تو وہی پتھر جیسا ہے ۔جو چار دیواری کے اندر غار کی طرح محفوظ ہونے کا احساس جاگزیں رکھتا ہے ۔
کسی بھی بات کو کہنا پھر اس کی تہہ تک جانا اور توقع یہ کرنا کہ جیسا اسے کہا گیا وہ حقیقت و سچائی ہے ۔ علا وہ اس کے دنیا پرائی ہے ۔عقل غیر سودائی ہے ۔رہنا اکیلے مزاج میں ڈھٹائی ہے ۔اپنا رنگ ہی اکثیر ۔ دوسرا حقیر و رسوائی ہے ۔قائدہ و قانون پابندی اختیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ مگر سوچ زیادہ تر پابندی کے خلاف بغاوت پر اکساتی ہے ۔
پھول اور پتھر کی طرح انسانی رویے میں محبت کو پروان چڑھاؤ جو درختوں اور چٹانوں کی طرح آسمانوں کو چھوئے ۔ نہ کہ زمین کے اندر دھنسی ہوئی دھاتوں سے بنائی ہوئی اشیاء سے طوق کی طرح گردن ، کڑوں کی طرح ہاتھ پاؤں قید تو ہوں مگر بڑائی کے نشہ کا سرور نہ جائے ۔

4 تبصرے:

کاشف نصیر said...

بہت خوب، مزا آگیا

جاویداقبال said...

السلام علیکم ورحمۃو برکاتہ
واقعی یہ بات توہےکہ کیادل کی جگہ پتھرہےاورپھرکہناکہ چٹانوں کی طرح ڈٹےرہناہی بہادری ہے۔ بہت خوب

والسلام
جاویداقبال

Mahmood ul Haq said...

کاشف نصیر صاحب آپ کا شکریہ پسندیدگی کا ۔

Mahmood ul Haq said...

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
جاویداقبال صاحب آپ کا شکریہ
زندگی میں بہت چھوٹی چھوٹی باتیں بہت گہرے مفہوم رکھتیں ہیں

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter