Jul 23, 2010

ہم سب آزاد ہیں

آزادی سے کیا مراد لی جاتی ہے ۔کسی بیرونی طاقت کے تسلط سے چھٹکارا پانا۔ یا اپنے فیصلے خود سے کرنا ۔آزادی کی تحریکوں کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ جب بھی کبھی کسی بیرونی آقا نے عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تو اس کے رد عمل میں تحریک قائدین نے اپنا کردار ادا کیا ۔
سرسید احمد خان کوئی حریت پسند نہیں تھے ۔مگر حمیت پسندی نےانہیں سوچنے پر مجبور کیا ۔جس نے زوال پزیر مسلمان قوم کو دوبارہ علم کی روشنی سے اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہونے میں مدد دی ۔ حالانکہ کم تعلیم یافتہ دور میں بھی ان قائدین نے اپنے مضامین کے زریعے اخبارات میں چھپنے سے لے کر ایوان اقتدار کے ایوانوں تک اپنی آواز پہنچائی۔رسالہ جات اور اخبارات قوم کی نمائندگی کرتے ۔گو کہ پڑھنے والوں کی تعداد انتہائی قلیل تھی مگر مواد پھر بھی میعاری ہوتا تھا ۔

انگریز بہادر کی چھتری تلے کام کرنے والے بھی بہت ہوں گے مگر تاریخ انہیں آج فراموش کر چکی ہے ۔اور ان کا ذکر کرنا بھی مناسب خیال نہیں کیا جاتا ۔تحریک آزادی کی روح رواں ایسی قیادت آزادی حاصل کرنے کے بعد گمنامی میں کیوں چلی جاتی ہے ۔
پاکستان میں آزادی کی تحریک کے روح رواں جو لوگ تھے ۔ پاکستان کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ ان کے نام نہ لئے جائیں ۔جنہوں نے اپنے اپنے تئیں قوم کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ سر سید احمد خان سے لے کر قائد اعظم محمد علی جناح تک بے شمار قائدین اس تحریک سے وابستہ ہوئے۔اور اپنے اپنے انداز میں قوم کی رہنمائی کی اور انہیں ان کی منزل مقصود تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ۔جس میں پرنٹ میڈیا سے بھی قائدین شامل تھے ۔
آزادی پانے کے بعد فرینڈز ناٹ ماسٹرجیسی سوانح عمری لکھنے والے،قائدین بن کر ملک و قوم کی باگ ڈور ا پنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں ۔مرض کی تشخیص کرتے کرتے جب طبیب خود مسیحائی پر اتر آتے ہیں ۔ پھر وہیں سے کوئی نیا خواب جگا دیتا ہے ۔اور آزادی کی امنگ تقریروں سے بڑھکا دیتا ہے ۔آقا بننے کے بعد وہی طرز عمل اختیار کر لیتا ہے جو اس کے پیش روؤں کا شیوہ رہا ۔
قوم کو نئی راہ دیکھائی جاتی ہے ۔ قرآن و حدیث کا علم بلند کر کے پھر ایک نئی تحریک میں ڈھالا جاتا ہے ۔اور چند سال تک اسلام کا نام لے کر اپنا الو سیدھا تو قوم کو الٹا لٹکا دیا جاتا ہے ۔اپنے کئے کا اپنے ہی ہاتھوں انجام پانے کے بعدقوم کو پھر ایک نیا آزادی کا متوالا ہاتھوں میں اٹھا لیتا ہے ۔چاہے وہ شریف ہو یا بدمعاش اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اس کے بعد آزادی پانے کا ڈھنگ بالکل ہی نرالا ہے ۔ کیونکہ نہ ہی چند ماہ سے زیادہ تحریک چلتی ہے اور نہ ہی حکومت ۔
ہوا کے گھوڑے پر بیٹھ کو امیرالمومنین جب مشرف بہ اسلام نہیں ہو پاتے ۔ تو پھر ایک نیا ڈرامہ شروع ہوتا ہے ۔جو چند سال ادل بدل سے پرانی فائلوں کو ہی کنگھالتا رہتا ہے ۔
ریشمی رومال کی تحریک کا چاہے جتنا بھی نام ہو ۔ کالے کوٹ سے بڑھی تحریک نہیں کہلا پائے گی۔ کالے کوٹ کی تحریک میں آزادی کا نعرہ بہت اہمیت حاصل کر گیا تھا ۔پھر وہی کالا کوٹ آزادی پانے کے بعد پہلے زینہ پر ہی دست وگریبان ہو کر پھٹتا ہوا نظر آتا ہے ۔تنازعات سے بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ بعض تو خود ہی متنازعہ ہو گئے ۔
پھر رنگین ٹی وی اور کالے صفحات بھی آزادی کی جنگ میں شرکت کرتے کرتے بے حال ہو گئے ۔ آزادی کے تحفظ کا دعویدار میڈیا بھی سراسیمگی پھیلانے میں آگے بڑھتا چلا گیا ۔ تاکہ پہلی خبر یا افواہ کا سہرا انہی کے سر رہے ۔ ہر گلی محلے کی نکڑ پر ویڈیو شاپ کی طرح قصبوں اور شہروں میں جگہ جگہ ایک عدد کیمرے کے ساتھ نمائندہ ہر اچھی بری خبر کی کوریج میں سرگرم عمل نظر آتا ہے ۔آج عدلیہ آزاد ہے ، میڈیا آزاد ہے ، حاکم بھی آزاد ہے ، حکومت بھی آزاد ہے ۔تو پھر یہ قوم ہی بیچاری قیدی کیوں ہے ۔
چودہ اگست1947 کو ملک و قوم نے جو آزادی حاصل کی تھی۔اس کے بعد سے 2010 تک ایک کے بعد ایک ادارہ اور شعبہ آزادی مانگتا چلا گیا اور اس کے لئے تحریکیں بھی چلائی گئیں ۔جس قوم کی آزادی اس کی بنیادی ضرورتوں میں پنہاں ہے۔ اب انہیں دلانے والا کوئی سرسید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر ، علامہ اقبال یا محمد علی جناح جیسا بے لوث رہنما موجود نہیں ہے ۔جو انہیں شعوری فکری روحانی آزادی کے بعد معاشی معاشرتی اور تمدنی آزادی دلا سکے ۔
جس معاشرہ میں کرایہ داری نظام اتنا مضبوط ہو کہ مالک مکان کو سامان سمیت کرایہ دار سڑک پر پھینکنا پڑے ۔تو پھر کرایہ دار کو یہ سوچ لینا چاہئے کہ مالک مکان آخر کب تک اپنی ملکیت سے ہاتھ دھونے کی فکر میں مبتلا رہے گا ۔ کہیں مالک مکان اپنی ملکیتی جائداد کو بچانے کے لئے اُٹھ کھڑے نہ ہوں۔اور سامان سمیت کرایہ دار کو نکال کر گھر سے باہر پھینک دیں ۔
زبان کی آزادی تو کب کی مل گئی ۔مگر پیٹ کی آزادی میں مبتلا یہ قوم پھر کسی مسیحا ءکے انتظار میں ہے ۔روح کی آزادی قائداعظم نے دلا دی۔ اب انہیں فکر معاش سے آزادی کے لئے کسی طبیب کی مسیحائی کی ضرورت ہے ۔

.٭.
دین کی دنیا میں فقط مسلمانی رہ گئی
نفرت کو بسائے صرف رشتہ داری رہ گئی

غلامی طوقِ گردن سے زنجیرِ پا ہو گئی
ملک آزاد ہو گیا قوم قیدی رہ گئی

جن سے تھا چھٹکارا پانا مقصود
اندازِ حکمرانی گورا تو چمڑی کالی رہ گئی

امانت دیانت صداقت کا پڑھا سبق
روحِ قائد نہ رہی باقی بے قاعدگی رہ گئی

تحریر و اشعار : محمودالحق

1 تبصرے:

جاویداقبال said...

السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
دارصل بھائي، بات یہ ہےکہ ہمیں انگریزوں سےتونجات مل گئی لیکن ان کی ذہینت سے نہیں ان کےقانون سےنہیں کیونکہ وہ ذہن جودےکرگئےہیں آج بھی ہمارےسیاسیتدان انہی پرچل کرکتےکی طرح دم ہلارہےہیں ۔

والسلام
جاویداقبال

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter