May 30, 2010
جینا جان سے زندگی
جب میں نے لکھنا شروع نہیں کیا تھا تب کسی اردو ویب سائٹ سے شناسائی بھی نہیں تھی ۔صرف معاشرے میں ایک فرد کی حیثیت سے تماشائی کا روپ دھارے ہوئے تھے ۔وقت نے اس بات کا احساس دلایا کہ ہم تو صرف تماشا تھے ۔تھپکیوں سے ہی خوشی میں لوٹ پوٹ ہو جاتے ۔
اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی کرنے والے تحسین کی سولی پہ چڑھاتے رہے ۔ جسے حسن اخلاق سمجھتے رہے وہ دراصل حالات کی نزاکت میں فرار کا محفوظ راستہ تھا ۔ان کے جانے کی قدموں کی چاپ تھپکیوں کی تھپ تھپ میں سنائی ہی نہ دے پائی ۔
گھر میں پیاز کی تہیں کٹنے سے ہر آنکھ اشکبار ہوتی تو کئی بار دیکھ چکے ہیں ۔خلوص کے چہرے سے بناوٹ کی تہیں اترنے لگیں تو صرف اپنی آنکھیں ہی چبھن سے اشکبار ہو جاتی ہیں۔ ایک کے بعد ایک آستینوں سے خنجر نکل آتے ہیں ۔اور اخلاص کے پہلو میں گھونپتے چلےجاتے ہیں ۔
بہت دیر کی مہرباں سمجھاتے سمجھاتے ۔ سمجھ تو وہ باپ بھی نہ پایا ہو گا ۔جب خوشی خوشی بیٹے کا خط کھول کر پڑھتے ہوئے آنکھیں پتھرا گئیں ہوں گی ۔ کہ آج وہ ایک ناکام انسان کے ساتھ ساتھ ناکام باپ بھی ہے ۔جو بچوں کو تعلیمی میدان میں مالی و اخلاقی مدد کے باوجود انھیں معاشی ترقی میں سیڑھی کا کردار ادا نہیں کر پایا ۔اس کا سفارش کی بجائے قابلیت کو معیار سمجھنا کامیاب والدین کی صف سے نکلنے کا سبب ہو گیا ۔کتنی آسانی سے انسان ( خاص طور پر مسلمان جسے والدین کی خدمت کا حکم اللہ تبارک تعالی نے بار بار دیا ہے ) دوسروں پر انگلی اٹھا کر اپنے بچوں کی انگریزی دانی کو ہی معیار بنا کر والدین کو مورد الزام ٹھہرا دیں ۔کہ وہ ان کے لئے کچھ نہ کر سکے ۔چودہ سولہ جماعتیں کرا دینا ہی تو والدین کی ذمہ داری نہیں ہوتی ۔معاشی طور پر مضبوط بنیادوں کا استوار کرنا بھی والدین کا فرض اولین قرار دے دیا جاتا ہے ۔
جس معاشرے کی بنیاد ایک ہاتھ دو تو ایک ہاتھ لو پر ہو تو وہاں ناکام و کامیاب کی بحث نا قابل عمل ہے ۔صرف ڈراموں اور فلموں میں تین گھنٹوں میں شیطان صفت کردار تائب ہو کر انسانی معراج پر پہنچ جاتے ہیں ۔مگر جیتے جاگتے پل گنتے گنتے زندگی میں بال سفید تو بینائی کمزور ہو جاتی ہے ۔مگر غرض و مفاد کے بت روز اول ہی کی طرح بناؤ سنگھار کئے پجاریوں کے سر پہ سوار رہتے ہیں ۔اور تا حیات تغیر و تبدل کے اثرات سے محفوظ ہی نہیں رہتے بلکہ جامد سوچ و افکار پر گہری چوٹ رکھتے ہیں ۔
کسی اخلاقی اصول پر معاشرتی ہم آہنگی پیدا ہونے کے امکانات محدود ہوتے ہیں ۔مگر مفاد حصول میں ہم آہنگی ہم نوالہ ہم پیالہ سے بھی بڑھ کر بغلگیر ہو جاتی ہے ۔اب ایسے ہم نواؤں سے خیر خواہی کی توقع عبث ہے ۔
لکھنا قلم سے ہو تو قلمی دوستی سے آگے نہیں بڑھ پاتی ۔مگر قلب سے لکھنا قلبی تعلق تک وسیع ہے ۔آنکھوں سے دیکھنا صفحات پر اترتا چلا جائے تو نشتر بن کر زخم دیتا ہے ۔ قلب سے جو اترے تو خنجر بن جاتا ہے ۔جو گھاؤ کی پیوندکاری میں اکثیر ہوتا ہے ۔زخم کے گھاؤ گہرے نہ ہوں تو لکھنا بھی سفینہء نہ ہو ۔شکوہ ذات سے ہو تو شکن تک نہ ہو ۔
مگر جہاں شکایات کے انبار ہوں ۔ وہاں عنایات انتظار میں رہتی ہیں ۔خواہشات کے بازار میں تو الزامات کی بھرمار ہوتی ہے ۔دو ہاتھوں میں دو اور سے چار تو ہو سکتے ہیں ۔ مگر قسمت کے کھیل میں جیت سے ہمکنار نہیں ۔جو کھونے کے خوف سے پہلے سے جمع سنبھالنے میں آنکھیں بند اور ہاتھ باندھ لیتے ہیں ۔دینے والے کے انعامات سے بھی منہ موڑ لیتے ہیں ۔
بارش کے برسنے میں بادلوں کے شکرگزار ہیں ۔سمندر کی تہہ سے اٹھنے والے بخارات انھیں بےثمر ہیں ۔
جینا جان سے انھیں زندگی ہے ۔ ایک امام سےبھی بڑھتی نہیں آگے ان کی زندگی ہے ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
6 تبصرے:
نئی نسل تو اب نہ ڈری البتہ انکو پیدا کرنے والے شرمندہ ضرور ہوجائینگے ۔مارنا اور ڈرانا بیکار ہی جائیگا ۔اب تو موٹیویشن سے ہی کام چلانا پڑیگا ۔
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
بھائی محمود،والدین کی بہت ذمہ داریاں ہوتی ہیں لیکن ہمارےہاں تویہ رواج ہےکہ بس بچوں کوپڑھادیاتوہرفرض سےسبکدوش ہوگئے۔یہ تورواج ہےاس کوہم لوگوں نے بدلناہےاوربچوں کی ہرہرمعاملےمیں رہنمائی کرنی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اس کاحوصلہ و ہمت دے۔ آمین ثم آمین
والسلام
جاویداقبال
سمجھ نہيں پايا کہ آپ کی تحرير زہر آلود خنجر ہے يا کوئی ذاتی تلخ تجربہ
اللہ کی کرم نوازی سے ميں 7 دہائياں زندگی کی گذار چکا ہوں اور پوتے پوتی والا ہوں ۔ اگر اپنے والدين کے بہن بھائیوں کو گِن لوں کيونکہ ميرے والدين خاندان ميں سب سے کم عمر تھے تو پڑپوتے پڑپوتيوں کو بھی ديکھ چکا ہوں
بات عِلم کی ہے جو آج کی دنيا ميں سَنَد حاصل کرنے کا نام رکھ ديا گيا ہے ۔ جب ميں سکول کالج ميں پڑھتا تھا تو عِلم کا مقصد انسان بنانا تھا ۔ اب عِلم تو رہا نہيں پڑھائی رہ گئی ہے جس کا مقصد مال کمانا اور بڑا کہلانا ہے ۔ عِلم يا باالفاظِ ديگر انسانيت خال خال ہی رہ گئی ہے
ہیلو۔ہائے۔اےاواے
بالکل اب تو بات سمجھانے کے لئے بھی اچھی مثال کا ہونا ضروری ہے جس سے ترغیب دی جا سکے ۔
جاویداقبال بھائی
آپ کی بات سے مجھے اتفاق ہے کہ بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی بہت ضرورت ہے اور ان کی راہنمائی بھی کریں ۔ گھروں میں اچھائی کی تعریف اور برائی کی سرزنش کریں ۔
افتخار اجمل بھوپال بھائی
آپ کا زندگی کا تجربہ ہماری عمر سے زیادہ ہے بات کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت آپ میں بہ اتم موجود ہے ۔ والدین کی زندگی میں میرا کردار بوڑھے کی لاٹھی کا تھا ۔ دنیا تو اس کے بعد دیکھی ہے ۔ میری زندگی میں لکھنے کا تسلسل پچھلے صرف ایک سال پانچ ماہ سے ہے ۔
محمودالحق انٹرایکٹ کرنے کا شکریہ ۔امید ہے یہ سلسلہ جاری رہیگا اور آپ کو ہماری وجہ سے ماڈریشن لگانے کی ضرورت نہیں پڑیگی ۔
آپ نے درست کہا کہ اچھی مثال کا ہونا ضروری ہے اور وہ بھی ایسی کہ لاجیکلی رد بھی نہ کی جا سکے ۔ایسا پاسیبل تو نہیں مگر پھر بھی اگر لگن واقعی سچی ہو اور پرسنل انٹرسٹس بھی کم سے کم یا کم از کم زیادہ وزیبل نہ ہوں تو کسی حد تک کام چل جاتا ہے ۔
ہیلو۔ہائے۔اےاواے
شکریہ تو جناب آپ سب کا جو میری تحریریں پڑھ لیتے ہیں ورنہ لکھ لکھ کر کہاں رکھوں انہیں میری ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ ایسی تحریر نہ لکھوں جس پہ تبصرہ پر ماڈریشن لگانی پڑے ۔
میرا یہ ماننا ہے کی جیت ہمیشہ سچ اور اصول کی ہوتی ہے اور اگر میں صرف اپنی ذات ہی کو ٹھیک کر لوں تو بڑی کامیابی ہے کیونکہ ہر مزاج سے ٹکرانا کوئی آسان کام نہیں
Post a Comment