May 27, 2010

یادداشت کھو جانے والی بیماری الزائیمر کی علامات

آج سے چند سال پیشتر پاکستان میں بہت کم لوگ الزائیمر کے متعلق جانتے تھے۔سیمینار منعقد کئے جاتے رہے تاکہ عوام میں بیماری کے بارے شعور بیدار ہو ۔ یادداشت کھونے والی بیماری جو رفتہ رفتہ انسان کو اپنے بس سے باہر کر دیتی ہے ۔ غیر محسوس طریقے سے دماغ کے خلئے آہستہ آہستہ جسم کے اعضاء کو آزاد ی کے پروانے تھماتے چلے جاتے ہیں ۔اورصرف وہی اعضاء کام سرانجام دیتے رہتے ہیں ۔ جو دماغ کے تابع نہیں ہوتے ۔ورنہ تو ایک کے بعد ایک بغاوت کرتا چلا جاتا ہے ۔خودمختاری کے اعلان کے بعد وجود کو زندہ جسم کی بجائے گوشت کا لوتھڑا بنا دیتا ہے ۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یاداشت کی کمی اور یاداشت کے خاتمے کی بیماری ”الزائیمر“ میں دماغ کی گہرائی میں حصہ لینے والے خلیوں الیکٹرانک الیکڑوڈ کے ذریعے متحرک کر کے دماغ میں”نیورون گروتھ“ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔امریکہ کے سابق صدر رونالڈ ریگن 1994میں اسی بیماری کا شکار ہوئے اور 2004 میں دس سال اس بیماری سے لڑتے لڑتے دنیا سے چلے گئے ۔مگر اس بیماری سے نجات نہیں پا سکے ۔تحقیق سے یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ ذہنی دباؤ کی وجہ سے نیند میں خلل سے اس بیماری کی علامات یادداشت میں کمی سے شروع ہو جاتا ہے ۔

لیکن اس وقت میں اس بیماری کے علاج یا تحقیق کے متعلق سیمیناروں کا احوال بیان نہیں کرنے جارہا ۔ بلکہ یہ بتانے جارہا ہوں کہ یہ بیماری اپنی ابتدائی حالت میں کون کون سی علامات ظاہر کرتی ہے ۔ اور اس کا آغاز کس طرح ہوتا ہے ۔ غیر محسوس انداز میں کہ ساتھ رہنے والے بھی اس بات سے بے خبر رہتے ہیں کہ ایک انسان اپنی زندگی بھول رہا ہے ۔
مرکزی حکومت (دماغ) سے ایک کے بعد ایک ریاست (اعضاء) آزادی کا اعلان بغاوت کر رہے ہیں ۔ انسان سمجھ ہی نہیں پاتا کہ وہ زندگی کے ان تنگ و تاریک راستوں میں داخل ہو رہا ہے ۔ جہاں وہ خود اور اس کے ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔الزائیمر کا آغاز جیسا کہ ابتدائی تحقیق سے سامنے آئی ہے کہ ذہنی دباؤ اس کا بنیادی سبب ہے ۔ شروع میں مریض کی یادداشت ایک مختصر وقت کے لئے ختم ہو جاتی ہے جیسے وہ اپنے گھر کے افراد میں سے چند ایک کو پہچان نہیں پاتا اور کبھی کبھار جوانی کے ایام دور کے واقعات اور تعلق والے اسے یاد آتے بلکہ سامنے بیٹھے محسوس ہوتے ہیں ۔
گھر سے باہر سیر کے لئے جائیں تو اچانک وہ اپنے گھر کی شناخت بھول جاتے ہیں ۔ گھر کے سامنے کھڑے اپنا گھر تلاش کرتے ہیں ۔ پھر اسی تلاش میں ایک گلی سے دوسری میں جاتے جاتے گھر سے دور نکل جاتے ہیں ۔ اور جب انہیں یادداشت واپس آتی ہے تو اس وقت تک اپنے گھر سے بہت دور نکل چکے ہوتے ہیں ۔ گھر کی پہچان تو واپس آ جاتی ہے مگر اب گھر سامنے نہیں رہتا ۔
کھانا کھا چکنے کے بعد بھی انہیں اس بات کا خیال ہوتا ہے کہ انہوں نے ابھی کھانا نہیں کھایا ۔انہیں یاد دلانا پڑتا ہے کہ وہ کھانا کھا چکے ہیں ۔دن و رات کا فرق ختم ہو جاتا ہے آدھی رات کو سالوں پہلے چھوڑا گیا دفتر اچانک یاد آجاتا ہے اور تیار ہو کر اندھیرے میں دفتر جانے کی تیاری میں گھر سے باہر جانے کی ضد کرتے ہیں ۔
آہستہ آہستہ یادداشت کھونے کا دورانیہ بڑھتا جاتا ہے ۔اور دیر تک اپنے حال سے جدا ہو جاتے ہیں ۔ماضی پرانے ریکارڈ کی طرح نکل کر سامنے آ جاتا ہے ۔اردو انگلش لکھنے پڑھنے والی آنکھیں لفظوں سے شناسائی کھو دیتی ہیں ۔ مریض سمجھتا ہے کہ اس کی نظر کمزور ہو چکی ہے مگر دراصل دماغ کے وہ خلئے جس میں الفاظ کا ڈیٹا سٹور رہتا ہے صاف ہو جاتا ہے ۔
پاخانہ پیشاب کے لئے باتھ روم تک پہنچ نہیں پاتے اور راستے میں ہی کپڑے خراب ہو جاتے ہیں کبھی بستر پر تو کبھی کسی فرش پر ۔ مریض سمجھ نہیں پاتا کہ کیا ہو رہا ہے ۔ ہاتھ میں پانی کا گلاس پکڑنے کا فن بھول جاتے ہیں ۔ روٹی کا نوالہ بنانے کی ترکیب یاد نہیں رہتی ۔ چمچ کو ہاتھ سے پکڑنا بھول جاتے ہیں ۔
بنیادی طور پر انگلیاں دماغ سے آزادی کا بغل بجا دیتی ہیں ۔اور لکڑی کے سہارے سے بھی لا تعلق ہو جاتی ہیں ۔کئی سال یہی معمولات زندگی رہتی ہے ۔ اگر کبھی دست کی شکایت سے کمزوری یا نقاہت ہو جائے تو ایک دو دن بستر پر رہ جائیں تو پھر پاؤں پر کھڑا ہونا ممکن نہیں رہتا ۔ بچے کی طرح لڑکھڑا کر گر جاتے ہیں ۔ زیادہ تر وقت اپنے حوش وحواس میں نہیں رہتے ۔ چند لمحوں کے لئے یادداشت لوٹ کر آتی ہے ۔ اور مریض صرف بستر تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے ۔
کھلی آنکھیں اور سانس لیتی ہوا صرف زندگی کی علامت رہ جاتی ہے۔ یہ زندگی مہینوں نہیں سالوں پر محیط ہے ۔ ایک ایک پل مریض جس تکلیف سے گزرتا ہے بیان سے باہر ہے ۔اس بیماری کا دورانیہ آغاز کے بعد15 سے 20 سال تک بھی رہ سکتا ہے ۔
یہ بیماری زیادہ تر بوڑھے لوگوں میں دیکھنے میں آئی ہے مگر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ 50 کی عمر کے افراد جو شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہے وہ بھی اس بیماری کا شکار ہوئے ۔ترقی یافتہ ممالک میں تو الزائیمر کا مرض کافی پرانا ہے ۔ اور وہ سال و سال سے اس کا علاج دریافت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ مگر فی الحال کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔
مگر اس سے بچاؤ ممکن ہے کہ ڈپریشن اور سٹریس سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کی جائے ۔ اب ہمارے معاشرے میں یہ بیماری وبا کی طرح پھیل رہی ہے ۔جوں جوں معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ رشتوں میں محبت اور ہمدردی کے جزبات کم ہوتے جارہے ہیں ۔ خاص طور پر معاشی ، خاندانی اور معاشرتی مسائل سے پریشانیاں بڑھی ہیں ۔کہیں دولت کی تقسیم سے تو کہیں رشتوں کے لین دین سے آپس میں ناچاتیاں پیدا ہوتی ہیں ۔زیادہ تر وہی لوگ اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں جو گھل گھل کر جیتے ہیں ۔دل کی بات کسی سے نہیں کہتے ۔ غم دکھ کسی ہمدرد سے بانٹتے نہیں بلکہ خود سے برداشت کرنے اور کڑھتے رہنے سے دماغ میں شریانیں سکڑتی چلی جاتی ہیں ۔ جب یہ بیماری سامنے آتی ہے تو وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے ۔
اپنے ارد گرد ماحول کا جائزہ لیں کہیں ہمارا اپنا کوئی پیارا تو برداشت کی قوت کو آزماتے آزماتے زندگی تو نہیں بھول رہا ۔
اللہ تعالی ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور صحت و تندرستی سے زندگی گزارنے کےڈھنگ پرعمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین


نوٹ ! اگر بیماری کی تفصیلات میں چلا جاتا تو مضمون طوالت اختیار کر لیتا۔ بیماری کے متعلق جو کچھ لکھا میرا ذاتی تجربہ ہے ۔ میرے والد محترم 14 سال اس بیماری کا شکار رہے اللہ تبارک تعالی کا شکر ہے میری جوانی ان کی خدمت میں گزری

طارق راحیل کے اس تبصرہ کے بعد نوٹ لکھنا ضروری سمجھا ۔
لگتا ہے فلم گجنی دیکھ کر اثر لے لیا ہے جناب نے)۔)

7 تبصرے:

احمد عرفان شفقت said...

بیماری تو کوئی بھی اچھی نہیں ہوتی لیکن یہ والا مرض تو بہت بھیانک نظر آ رہا ہے۔ اللہ سب کو ایسی آزمائش سے بچا ئے۔ امین۔

ذہنی دباو واقعتا ایک بہت بری چیز ہے۔

Mahmood ul Haq said...

احمد عرفان صاحب میں نے زندگی میں ایسی بھیانک بیماری نہیں دیکھی ۔ جو کچھ لکھا میرا ذاتی تجربہ ہے ۔ میرے والد صاحب 14 سال اس بیماری کا شکار رہے ۔

افتخار اجمل بھوپال said...

اللہ ہر بيماری اور بُری عادت سے بچائے
لفظ الزائمر تو ميں نے دس پندرہ سال قبل ہی سُنا ليکن نسيان کی بيماری کا ذکر ميں نے بچپن ميں يعنی پانچ دہائياں قبل بھی سُنا تھا ۔ درست کہ يہ مرض عام طور پر 50 سال سے زائد عمر ميں شروع ہوتا ہے مگر کبھی کبھی جوانوں ميں بھی پايا جاتا ہے خواہ وقتی ہو ۔ کہا جاتا تھا کہ اس کی دو وجوہ ہوتی ہيں ايک اختياری اور ايک اختيار سے باہر ۔ اختياری حساسيت اور پريشانی اور دوسری کا تعلق دماغ کے خُليوں کی بيماری سے ہے
پہلی صورت ميں يہ مرض کافی لوگوں کو ہوتا ہے مگر وہ توجہ نہيں ديتے
عصرِ حاضر ميں اس مرض کا پھلاؤ زيادہ ہو سکتا ہے ۔ وجہ نہ سمجھ ميں آنے والی حکومتی منصوبہ بندياں ہيں ۔ ملک کوئی بھی ہو ۔
ہاں کچھ لوگ ہيں جو اس مرض سے محفوظ رہتے ہيں يعنی وہ جن کا اللہ پر مکمل بھروسہ ہوتا ہے اور ہر حاھل ميں خوش رہتے ہيں

DuFFeR - ڈفر said...

آپکی تحریر بہت معلوماتی اور ڈراؤنی ہے
میرے ساتھ کچھ اسی طرح کی پرابلمز ہیں
عینک لگا کے عینک ڈھونڈنا
موبائل پر بات کرتے ہوئے کسی نمبر کے لیے موبائل تلاش کرنا
دیگچی سے کھانا پلیٹ میں نکال کر دیگچی مائکرو ویو میں رکھ دینا
لوڈشیڈنگ کے وقت پنکھا نہ چلنے پر موم بتی کی روشنی میں فیوز چیک کرنا
اور بہت ساری چولیں بجتی ہیں مجھ سے
کیا میں واقعی اسی طرح کے کسی مرض کا شکار ہوں؟
ایک ڈاکٹر سے مشورے کے لیے گیا تھا اس سلسلے میں تو نوں ہی کتا کھول دیا تھا اس نے
وہ قصہ تو پوری ایک پوسٹ مانگتا ہے
نوٹ: میں نے یہ تبصرہ فُل سیریس ہو کے لکھا ہے

Shekari said...

ڈپریشن اور ٹینشن لینے کی عادت تو مجھ میں بہت زیادہ ہے۔ بہت کوشش کرتا ہوں کہ ٹینشن نہ لوں لیکن پھر بھی ہوجاتی ہے۔

محمد طارق راحیل said...

لگتا ہے فلم گجنی دیکھ کر اثر لے لیا ہے جناب نے
بہت ہی تفصیل سے روشنی ڈالی جناب نے
بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس کے بارے بیں ابھی جانتے ہی نہیں

Mahmood ul Haq said...

طارق راحیل صاحب
اللہ تبارک تعالی سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ ہم سب کو صحت و تندرستی عطا کرے ۔
گجنی سے ہی آپ نے اتنا اخز کر لیا ۔اگر میری طرح تن تنہا 14 سال اس بیماری کے ساتھ زندگی بسر کی ہوتی تو شائد کئی فلمیں یاد آ جاتیں ۔ والد صاحب جب اس بیماری کا شکار ہوئے تو میں 27 سال کا تھا اور ان کے انتقال کے وقت میری عمر 41 سال تھی۔ کمزوراعصاب کا آدمی اس بیماری کے ساتھ چند مہینوں سے زیادہ نہیں گزار سکتا ۔

Post a Comment

سوشل نیٹ ورک

Flag Counter